Maktaba Wahhabi

378 - 665
والد بیٹے کو تعلیم دلانے کے لیے گوجرانوالہ لے آئے۔ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ قاضی کوٹ میں عبداللہ کی پھوپھی سکونت پذیر تھیں۔ انھوں نے اپنے اس بھتیجے کی تربیت کی اور وہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی جاری کردہ درسگاہ”مدرسہ محمدیہ“میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی سے تحصیل علم کی۔ میں نے پہلی دفعہ مولانا عبداللہ کو 1940؁ءمیں دیکھا تھا۔ میں علوم دینیہ کے مروجہ نصاب کی انتہائی کتابوں کی تکمیل کے لیے حضرت الاستاذ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے حکم کے مطابق گوجرانوالہ میں حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں جن حضرات سے تعارف ہوا، ان میں مرحوم مولانا عبداللہ بھی شامل تھے۔ وہ ان کی چوبیس پچیس سال کی بھر پور جوانی کا زمانہ تھا اور فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ دال بازار کی مسجد اہل حدیث کی خطا بت و امامت ان کے سپرد تھی۔ وہیں ان کا قیام تھا۔ اس زمانے میں اس مسجد کی انتظامیہ جن معر ز ارکان پر مشتمل تھی۔ ان میں ایک موثر رکن میاں عبداللہ اہل حدیث تھے اور وہ مولانا عبداللہ پر نگاہ شفقت رکھتے تھے، مسجد اہل حدیث دال بازار سے مولانا عبداللہ روزانہ چوک نیائیں مولانا محمد اسماعیل سلفی کی مسجد میں آتے اور تمام نصابی کتابوں کے درس میں شامل ہونے کی کوشش کرتے۔ دوسرے لفظوں میں کہنا چاہیے کہ ہر درسی کتاب پڑھنے اور سننے کا انھیں کئی کئی دفعہ موقع ملا۔ اس طرح بہت سی کتابوں پر انھیں عبور حاصل ہو گیا تھا۔ وہ بات چیت اور میل جول میں بے تکلف تھے۔ چھوٹے بڑے تمام طلبا سے ہم کلامی میں ان کا ایک ہی انداز تھا۔ اس سلسلے میں وہ تکلف کے عادی نہ تھے۔ صاف پنجابی میں سیدھی بات کرتے تھے۔ میں دو سال وہاں رہا عمر میں ان سے کئی سال چھوٹا تھا، لیکن مجھ سے ان کا طرزِمخاطب وہی تھا جو اپنے ہم عمر طلبا سے تھا۔ وہ اپنے بارے میں کسی کے ذہن میں احساس اجنبیت نہیں پیدا ہونے دیتے تھے۔ بالعموم صبح سے نماز ظہر تک وہ جامع مسجد اہل حدیث میں رہتے تھے۔ عصر کے وقت اپنی مسجد (دال بازار ) میں چلے جاتے تھے، جس کے وہ خطیب بھی تھے اور امام بھی۔ 1940؁ءاور 1941؁ءمیں ان سے جمعے کی چھٹی کے علاوہ تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی تھی اور بات چیت کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ پھر 1949؁ءمیں گوجرانوالہ سے مولانا محمد حنیف ندوی کی ادارت میں ہفت روزہ”الاعتصام“جاری ہواتو مولانا ندوی کے ارشاد کے مطابق فروری1950؁ءمیں مرکزی جمعیت کے اصحاب اختیار نے مجھے نائب مدیر کی حیثیت سے گوجرانوالہ بھیج دیا۔وہاں تقریباً تین سال میرا قیام رہا۔ اس اثنا میں بھی مولانا عبداللہ صاحب سے میل جول کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت وہ فریضہ تدریس بھی انجام دیتے تھے۔
Flag Counter