Maktaba Wahhabi

379 - 665
مولانا عبداللہ کا آبائی وطن (جیسا کہ پہلے بتایا گیا) ضلع سرگودھا کا ایک گاؤں چک نمبر16جنوبی تھا لیکن ان کا تعلق ضلع گجرات کے کسی گاؤں سے بھی تھا اور وہ مہینے کے بعد وہاں جاتے اور دو تین روز کے بعد واپس آجاتے تھے۔ضلع گجرات سے تعلق کی بنا پر حلقہ طلبا میں ان کو مولانا عبداللہ گجراتی کہا جاتا تھا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے ابتدا ہی سے گوجرانوالہ کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ پھر یہی شہران کی دینی و تدریسی سرگرمیوں کا مرکز بنا اور یہی ان کا مدفن ہوا۔ نور اللہ مرقدہ۔ گوجرانوالہ پہلوانوں کا شہر تھا۔ یہ کلچراب بھی کسی حد تک وہاں موجود ہے۔ چنانچہ جس میدان میں مولانا عبداللہ کی نماز جنازہ پڑھی جارہی تھی، اس کے ایک گوشے میں پہلوانوں کا اکھاڑا ہے جس میں جنازے کے وقت اپنے معمول کے مطابق گوجرانوالہ کے پہلوان”زور “کر رہے تھے۔ آج سے27۔28سال قبل میرا مولانا عبداللہ صاحب سے تعارف ہوا تھا۔ اس وقت گوجرانوالہ کے بعض کشمیری پہلوانوں سے ان کے اچھے مراسم تھے اور ان سے وہ پہلوانی کا فن سیکھا کرتے تھے اور وہاں کے جماعتی حلقے میں انھیں”مولوی عبداللہ پہلوان“کہا جاتا تھا۔ وہ پہلوانوں کی طرح اکھاڑے میں جاتے زور کرتے اور ”ڈنڈبیٹھکیں“لگایا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے تک ان کی صحت بہت اچھی رہی، قرآن کی زبان میں کہنا چاہیےکہ وه(بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ)تھےاور چونکہ ان کی علمی تربیت گوجرانوالہ میں ہوئی تھی اور یہیں سے انھوں نے خطابت و امامت اور پھر تدریس کاآغاز کیا، اس لیے انھوں نے اسی شہر کے خطیب و عالم کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس شہر میں مولانا ممدوح کی خطابتی اور تدریسی خدمات کا دائرہ ساٹھ سال سے زیادہ مدت میں پھیلا ہوا ہے۔ جی ٹی روڈ پر انھوں نے جامعہ محمدیہ کے نام سے ایک دارالعلوم قائم کیا، وہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس سے اب تک ہزاروں علماء و طلبا ءاستفادہ کر چکے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔ یہ ان کا ایسا صدقہ جاریہ ہے، جس کا اجر بارگاہِ الٰہی سے انھیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔ اس دارالعلوم میں انھوں نے خود بھی طویل عرصے تک طلبا ءکو قرآن و حدیث اور دیگر علوم متداولہ کی تعلیم دی اور متعدد فاضل اساتذہ بھی اس باب میں سر گرم عمل رہے۔ یہ سطور 30 ستمبر 2007؁ءکو لکھی جارہی ہیں۔ اس وقت وہاں مولانا عبدالمجید ہزاروی شیخ الحدیث کی مسند پر فائز ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ عبدالمنان نور پوری، مولانا محمد رفیق سلفی، مولانا محمد مالک بھنڈر، حافظ محمد عمران عریف، حافظ محمد عبداللہ شرق پوری، قاری منظور احمد صاحب اور بعض دوسرے اساتذہ کرام وہاں فریضہ تدریس سر انجام دے رہے ہیں۔ 20۔فروری 1968؁ءکو حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کا سانحہ ارتحال پیش آیا تو ان کی جگہ جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب کےتقرر کے لیے گوجرانوالہ کی انجمن اہل حدیث کا اجلاس ہوا۔
Flag Counter