Maktaba Wahhabi

380 - 665
بعض ارکان انجمن نے رائے دی کہ کسی باہر کے خطیب کی خدمات حاصل کی جائیں اور بعض نے مولانا عبداللہ صاحب کے تقرر کا مشورہ دیا۔ ہمارے مرحوم دوست اسماعیل ضیا(سابق ایم پی اے)کا اصرار تھا کہ مولانا عبداللہ صاحب ہی خطابت کے لیے موزوں ہیں۔ وہ اس شہر کے باشندے ہیں اور یہاں کے ماحول سے آگاہ ہیں۔ کوئی دوسرا خطیب جو باہر سے آئے گا، معلوم نہیں اس کے کیا مطالبات ہوں اور ہمارے ساتھ اس کا نباہ ہو سکے یا نہ ہو سکے۔اسماعیل ضیاء مرحوم کی تجویز کے بعد انجمن کے ارکان نے انہی کو اپنے نمائندے کے طور پر مولانا عبداللہ مرحوم کی خدمت میں بھیجا۔انھوں نے مولانا کو انجمن کے فیصلے سے مطلع کیا تو وہ فوراً یہ خدمت انجام دینے پر رضا مند ہو گئے اور حضرت مولانا محمداسماعیل کا منبران کے حوالے کردیا گیا۔ مولانا عبداللہ مرحوم جماعت اہل حدیث کی بزمِ علم کے اہم رکن تھے۔ان کی تدریسی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع تھا، کم و بیش ساٹھ سال پر محیط۔ وہ انتہائی خوش بخت تھے جو اتنی طویل مدت تک خاص انداز اور تسلسل کے ساتھ ایک ہی شہر میں قال اللہ وقال الرسول کی دلنواز صدائیں بلند کرتے رہے اور جنھوں نے اپنی حیات مستعار کا اتنا بڑا حصہ (لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللّٰه هِيَ الْعُلْيَا) کی جد وجہد میں صرف کردیا۔ تدریس کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھے خطیب بھی تھے۔ خطابت میں انھوں نے پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا اور وہ اس میں کامیاب تھے۔ صاف بیان مقرر تھے اور جرأت مندانہ لہجے میں بیان مدعا فرماتے تھے۔ اپنے علم و مطالعہ کی روشنی میں جو بات صحیح سمجھتے اسے زبان پر لانے میں کسی قسم کا باک محسوس نہ کرتے تھے۔ 1999؁ءمیں ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے اس ممتاز خطیب اور نامور مدرس کی علمی اور دینی سر گرمیاں معطل ہو گئی تھیں۔ اب نہ ان میں گفتگو کا یارارہا تھا نہ چلنے پھرنے کی طاقت تھی۔ اس متحرک و مستعد شخصیت کی تمام سر گرمیاں ختم ہو گئی تھیں۔جسمانی طاقت انتہائی کمزوری میں بدل گئی تھی اور سرسےپاؤں تک یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ مولانا عبداللہ کے بجائےان کا نہایت مختصر خلاصہ معلوم ہوتے تھے۔ آخر28۔اپریل 2001؁ء(23۔صفر1422؁ ھ کی صبح کو ہفتے کے روز یہ خلاصہ بھی اس جہان آب و گل سے کوچ کر گیا۔ اناللّٰه وانا اليه راجعون اسی روز نماز عصر کے بعد گوجرانوالہ کے شیراں والا باغ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ یہ فقیر نماز جنازہ میں شریک تھا۔
Flag Counter