Maktaba Wahhabi

425 - 665
عبدالغفاروالد کی طرف سے آسکانی ڈگارانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔یہ عالی ڈگار کی اولاد ہیں جو کہ رند قبیلے کی ایک شاخ ہے۔ یہ قبیلہ زیادہ تر زیارت، کوسچی، صلامی کوہ، سرباز، ہنگ اور مورتان کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہے۔ ان میں سے بعض علاقے ایرانی بلوچستان میں اور بعض ایرانی حدود سے متصل ضامران میں واقع ہیں۔سورگ، بگان، سیاہ گیسی کے کچھ حصے میں یہ قبیلہ آباد ہے۔مولانا ممدوح کے نانا بھی آسکانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ نانی کا تعلق شنبے زئی خاندان سے تھا، جن کی بابت علامہ نورمحمد ضامرانی مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ یہ بزنحو قبیلے کی ایک شاخ ہے۔بعض لوگ ان کا تعلق بروہی قبائل سے جوڑتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مولانا عبدالغفارکے دادا”کہداگمانی“ضامران کے معروف شخص تھے۔ پورے بلوچستان بالخصوص مکران میں ان کا شہرتھا۔ وہ بہت سی خوبیوں کے حامل اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔مہمان نواز اور نہایت دلیر۔ ان کی بہادری کے کئی قصے پورے مکران میں مشہور ہیں۔بہادری کے علاوہ متحمل مزاج اور شریف الطبع تھے۔ ایک مرتبہ اپنی کھیت کو جارہے تھے، جب قریب پہنچے تو دیکھا کہ ایک چور وہاں چوری کر رہا ہے۔اسے دیکھتے ہی چھپ گئے تاکہ چور انھیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو۔ اس وقت تک وہاں چھپے رہے جب تک چور اپنا کام کر کے چلا نہیں گیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ نہایت پرہیز گار اور موحد تھے۔عالم نہ ہونے کے باوجود صورت وسیرت سے عالم معلوم ہوتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ علماء سے انھیں والہانہ محبت تھی۔ ایک بزرگ مولانانور محمد ضامرانی تھے۔ وہ تقریباً بیس سال اپنے علاقے سے باہر ہندوستان میں رہے۔ جب واپس آئے تو کہداگمانی نے اپنے علاقے سورگ میں ایک مسجد تعمیر کرائی جس کا انھیں امام مقرر کیا۔ تین سال وہ یہاں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔۔ کہا جاتا ہے کہ جب مولانا محمد ضامرانی کی والدہ وفات پاگئیں تو ان کے والد نے اپنی زرعی زمین کہداگمانی اور میر مراد خان کو فروخت کردی تھی لیکن جب مولانا نور محمد کے ضامران واپس آنے کے بعد ان کی شادی کی بات چلی تو وہ زمین جوان لوگوں نے مولانا کے والد سے خریدی تھی ان کو دے دی تاکہ ان کی شادی کا بندوبست ہوسکے۔ مولانا عبدالغفارکے داداکہداگمانی کی وفات کے بعد ان کے قبیلے کا سردار مولانا والد کہداداد محمد بنایا گیا۔ وہ بھی باپ کی طرح حلیم الطبع لوگوں کے خیر خواہ غریبوں کے معاون اور ہم
Flag Counter