Maktaba Wahhabi

446 - 665
دیگر حضرات جنھوں نے آگے چل کر درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے حلقوں میں بڑا نام پایا اور جن کی علمی شہرت دور دراز علاقوں تک پہنچی۔ مولانا محمود احمد میرپوری کا آغاز طالب علمی ہی سے نقطہ نظر یہ تھا کہ علما ءکو کسی کا محتاج نہیں ہونا چاہیے اور آزادی کے ساتھ دین کی خدمت کرنا چاہیے، چنانچہ اس خیال سے انھوں نے گوجرانوالہ والا میں طالب علمی کے زمانے میں پاور لو میں لگا کر شنیل کا کپڑا بنانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور اس کاروبارپر وہ بہت خوش اور مطمئن تھے۔ گوجرانوالہ کے زمانہ طالب علمی میں عربی عالم کا امتحان دیا اور اس کے بعد میٹرک پاس کیا۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہاولپور کا عزم کیا اور وہاں کی اسلامیہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس یونیورسٹی میں ان کی صلاحیتیں خوب اجاگر ہوئیں۔ انھیں سٹوڈنٹ یونین کے وائس پریذیڈنٹ منتخب کیا گیا۔ یونیورسٹی کے تقریری مقابلے میں اول انعام کے مستحق قرارپائے۔یہیں بی اے پاس کیا اور کچھ پنجاب یونیورسٹی (لاہور) میں ایم اے عربی کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ کچھ عرصہ ہفتہ روزہ اخبار”اہل حدیث “(لاہور)کے ایڈیٹر رہے اور بیگم کوٹ کی جامع مسجد اہل حدیث کا منصب خطابت بھی ان کے سپرد رہا۔ دور طالب علمی میں ان کی قسمت کا ستارہ مزید چمکا اور وقت نے ان کے حق میں ایسی کروٹ لی کہ وہ پاکستان سے نکل کر مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں کی یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص کرم تھا۔ مدینہ یونیورسٹی کا نصاب مکمل کر چکے تو سعودی حکومت کی طرف سے انھیں دینی خدمات سر انجام دینے کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا۔اب ان کی عملی زندگی ایک بالکل نئے ماحول میں داخل ہوتی ہے اور وہ ایسی فضا سے شناسائی پیدا کرتے ہیں جہاں ان کی قابلیت کے جوہر کھلتے اور ان کی صلاحیتیں نکھرآتی ہیں، جن سے بے شمار لوگ فیض حاصل کرتے ہیں اور ان کے پندونصائح اس نواح کی مخلوق خدا کے لیے اصلاح احوال کا باعث بنتے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ ©۔۔۔ان کے برطانیہ جانے سے پہلے مولانا فضل کریم عاصم، مولانا عبدالکریم ثاقب اور بعض دیگر حضرات وہاں پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے وہاں اپنی جماعتی تنظیم ”مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ “کے نام سے قائم کر لی تھی اور مختلف مقامات میں جمعیت کی شاخوں کا قیام عمل میں آچکا تھا، جن کے ماتحت ارکان جمعیت دعوت و ارشاد کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ارکان جمعیت میں سر گرمی کار کا جذبہ انہی (مولانا محمود احمد میر پوری) کے جانے کے بعد ابھرا۔انھوں نے جامعت کے تمام لوگوں کو جمع کیا اور دعوت و تبلیغ کی نئی اور مؤثر جہتوں کی نشاندہی کی۔ پھر جمعیت کی نظامت علیا پر انہی کو فائز کیا گیا، جب کہ اس کی زمام امارت مولانا فضل کریم
Flag Counter