Maktaba Wahhabi

453 - 665
سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد رشید مولانا محمد موسیٰ سے حصولِ علم کیا تھا۔مولانا عبدالصمد نے بلتستان کے بہت بڑے مفتی اورکتاب وسنت کے جرأت مند داعی کی حیثیت سے شہرت پائی۔ عبدالرشید 1925ء میں بمقام بلغار پیدا ہوئے۔بچپن ہی سے خاندان کے لوگوں کا مرکز محبت تھے۔ابتدائی تعلیم گھر میں مولانا عبدالصمد اور والد مکرم مولانا عبدالملک سے حاصل کی۔ گیارہ سال کی عمر کو پہنچے تھے کہ والدہ وفات پاگئیں۔یہ ان کے لیے ایک عظیم صدمہ تھا جو عمرکے ابتدائی دور میں پیش آیا۔لیکن انھوں نے سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔کچھ مدت کے بعد انھیں غواڑی کے دارالعلوم میں داخل کرادیاگیا۔غواڑی ان کے گاؤں بلغار سے صرف بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، لیکن اس وقت اس علاقے میں آمدورفت بہت مشکل تھی۔دریائے شیوک پر پل نہیں تھا، اس لیے وہاں پہنچنے کے لیے کم وبیش 80 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔بہرکیف عبدالرشید غواڑی آئے اور وہاں کے دارالعلوم میں مولانا محمد موسیٰ اور شیخ الحدیث مفتی کریم بخش کے حلقہ ٔ شاگردی میں شامل ہوئے۔وہاں انھوں نے دارالعلوم کے نصاب کے مطابق تفسیر جلالین، تفسیر جامع البیان، مشکوٰۃ، نسائی، ابن ماجہ، کافیہ، شافیہ او رمنطق کی چند کتابیں پڑھیں۔ 1945ء میں ان کے والد محترم مولانا عبدالملک وفات پاگئے تو اس سے کچھ عرصہ بعد عبدالرشید اپنے اساتذہ سے اجازت لےکر امرتسر پہنچے اورمدرسہ غزنویہ میں داخلہ لیا۔وہاں مولانا نیک محمد اور بعض دیگر اساتذہ سے کسب فیض کرنے لگے۔امرتسرمیں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمت میں بھی حاضری دینے اور ان سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل کی۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ امرتسر کے مدرسہ غزنویہ میں وہ کتنا عرصہ رہے اور کس استاذ سے کون سی کتابیں پڑھیں۔ امرتسر سے دہلی کا قصدکیا اور پھاٹک حبش خاں میں حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی کے بہت پہلے وفات پاچکے تھے لیکن وہ مدرسہ موجود تھا۔اب اس کی مسند تدریس پر مولانا محمد یونس دہلوی متمکن تھے۔مولانا عبدالرشید لداخی نے ان سے اخذ علم کا سلسلہ شروع کیا۔کئی سال وہ وہاں کے اساتذہ سے استفادہ کرتے رہے۔لیکن امرتسر کے مدرسہ غزنویہ کی طرح اس مدرسے میں بھی پتا نہیں چلتا کہ انھوں نے کون کون سی کتابیں کس کس استاذ سے پڑھیں۔اس میں البتہ کوئی شبہ نہیں کہ زمانۂ طالب علمی ہی میں انھوں نے عربی، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرلیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی معلومات کا دائرہ وسیع ہوگیا تھا اور ادبیات سے بھی انھیں خاصی دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ مدرسہ میاں صاحب ہی میں انھیں ہندوستان کے ممتاز عالم دین مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی مرحوم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔پہلی ملاقات ہی میں مولانا تقریظ احمد سہسوانی ان کی وسعت
Flag Counter