Maktaba Wahhabi

522 - 665
گاؤں پر بقامت کہتر بقیمت بہتر کی صرب المثل صادق آتی تھی۔ بڈھیمال کے بارے میں بعض باتیں یہ فقیر اپنی کتاب”قافلہ حدیث“ کے اس طویل مضمون میں بیان کرچکا ہے جو حضرت حافظ عبداللہ بڈھیمالوی(متوفی 9۔مئی 1987ء)کے حالات میں لکھاگیا ہے۔[1] زیر مطالعہ کتاب”دبستان حدیث“میں مولانا حافظ احمداللہ صاحب بڈھیمالوی سے متعلق مضمون میں بھی مناسب مواقع پربڈھیمال اوروہاں کے علمائے کرام کے بارے میں بعض ضروری باتیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں۔اس مختصر سی بستی میں متعددعلمائے کرام نے جنم لیا جوقیام پاکستان سےپہلے بھی خدمت تدریس انجام دیتے رہے، لیکن بعد میں انھوں نے بالخصوص مختلف مقامات میں مساند درس آراستہ کیں اورشائقین علوم دینیہ کےجم غفیر کومستفیدفرمایا۔اس کارخیر کا صلہ انھیں اللہ ہی دینے والاہے۔ عبداللہ امجد کےدادا تین بھائی تھے، جن کے نام علی الترتیب یہ ہیں:جمال الدین، جلال الدین اورعنایت اللہ! جمال الدین کے دو بیٹے تھے اور دونوں عالم تھے۔بڑے کا نام مولوی عبداللہ تھا اور چھوٹے کا مولوی محمد۔ مولوی عبداللہ اُس دور میں اپنے علاقے کے مشہور عالم تھے۔متقی اور پیکر صالحیت۔واعظ اور مدرس۔بہت سے لوگوں نے ان سے استفادہ کیا۔عالم جوانی میں سفر آخرت پر روانہ ہوگئے تھے۔عبداللہ امجد کا نام انہی کے نام پر عبداللہ رکھا گیا تھا۔ مولوی محمد بھی عالم دین تھے اور وعظ وخطابت سے دلچسپی رکھتے تھے۔انھوں نے 80 سال کے پس وپیش عمر پا کر قیام پاکستان کے بعدچک نمبر 36 گ ب(تحصیل جڑانوالہ) میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔
Flag Counter