Maktaba Wahhabi

528 - 665
کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ یہ فقیر اپنے آپ کو علمائے کرام کا خادم سمجھتا ہے او رپانے فہم اور محدود معلومات کے مطابق ان کے بارے میں تھوڑا بہت لکھاتا رہتا ہے۔ اس کی تحریر سے کوئی کیا اثر لیتا ہے، اس سے یہ خادم بے نیاز ہے۔ کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، اس کی پرو اکیے بغیر کام جاری رہتا ہے اور جاری رہنا چاہیے۔ اختلاف میں پھنس گئے تو کوئی کام بھی نہیں ہو سکے گا۔ مولانا عبداللہ امجد کے جو حالات ہمیں معلوم ہوئے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ ان کی طالب علمی کا زیادہ تر زمانہ جامعہ محمدیہ (اوکاڑہ) میں گزرا، وہاں کے اساتذہ سے انھوں نے انتہائی درسی کتابیں پڑھیں اور وہیں سے سند فراغت لی۔ وہیں سے طالب علمی کے زمانے ہی سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔ پھر مدرس کی حیثیت سے بھی ان کے تعارف کا اولین بیج جامعہ محمد یہ ہی کی زر خیز علمی سر زمین میں بویا گیا، جس نے آگے چل کر تنا و ر درخت کی شکل اختیار کی، جس کے وسیع سایہ میں بے شمار لوگوں نے علمی آسود گی حاصل کی اور کر رہے ہیں۔ مولانا عبداللہ امجد چھتوی بہت اچھے مدرس ہیں اور نیک خاندان کے نیک فرد ہیں۔ اس فقیر کے قریبی رشتے دار ہیں۔ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں، لیکن میں ان کا بے حد احترام کرتا ہوں۔ان کا قافلہ عمر منزل سبعین سے آگے نکل چکا ہے اور وہ ماشاء اللہ راہ تدریس پر تیزی سے گامزن ہیں۔ حلیہ یہ ہے نکلتا ہوا قد، متناسب جسم، نہ فربہی کا تسلط، نہ لاغری کا غلبہ۔ تیکھے نقوش، گندمی رنگ، سفید داڑھی یعنی چہرے پر بزرگی کا قبضہ، شلوار قمیص میں ملبوس، سر پر قراقلی ٹوپی، وضع دار عالم دین، اچھے مقرر اور خوش نوا خطیب۔ اللہ تعالیٰ تدین و صلاحیت کے اس پیکر پرخلوص کی خدمات کے دائرے کو مزید وسیع فرمائے اور انھیں صحت و عافیت کے ساتھ طویل زندگی عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔ مولانا عبداللہ امجد کی اولاد بیٹے اور بیٹیاں سب تعلیم یافتہ ہیں اور سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
Flag Counter