Maktaba Wahhabi

631 - 665
اسلامی لٹریچر کو اس زبان میں منتقل کرنے کا عزم کیا اور اس کے ساتھ مدارس میں عربی تعلیم اور عربی میں تحریر و نگارش کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اب ہندوستان کی سر کاری زبان ہندی قرارپا گئی ہے تو وہاں کے مسلمان اہل علم کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی نشرواشاعت کے لیے اس زبان کا سہارا لیں۔ اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس ملک میں اسلام کی تبلیغ کے لیے انھیں ایک اور زبان مل گئی۔ وہ عربی میں تحقیقی کام ضرور کریں لیکن جس ملک سے ان کا اصل تعلق ہے، اس ملک کے لوگوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ وہاں کے مسلمان جو ہماری اطلاع کے مطابق پچیس چھبیس کروڑ کے لگ بھگ ہیں اُردو بولتے ہیں اور اُردو لکھتے ہیں۔ ان کا اسلام سے رابطہ مضبوط رکھنے کے لیے اہل علم کا فرض ہے کہ اظہار و بیان میں اُردو کو اہمیت دی جائے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ بیس پچیس برس سے ہمارے بعض اصحاب قلم نے صوفیاء پر تنقيد کو اپنے لیے ضرور قراردے رکھا ہے۔ مولانا صلاح الدین کی بعض تصانیف کے ناموں سے اشارے ملتے ہیں کہ انھوں نے بھی اپنی تحقیق کے مطابق یہ فریضہ ادا فرمایا ہے۔ میں نے ان کی کتابیں نہیں پڑھیں، اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ ان کے نزدیک ”صوفی “کی کیا تعریف (ڈیفی نیشن)ہے۔برصغیر میں صوفی کا اطلاق نیک، پرہیز گار، ہمدرد خلائق اور احکام شریعت کی پابندی کرنے والے شخص پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہوتے اور اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ دورنہ جائیے صرف پنجاب کی جماعت اہل حدیث کو دیکھیے کہ ان میں حضرت سید عبداللہ غزنوی، سید الامام عبدالجبار غزنوی، مولانا غلام رسول (قلعہ میہاں سنگھ والے) مولانا صوفی محمد سلیمان (روڑی والے) صوفی ولی محمد (فتوحی والا) قاضی محمد سلیمان منصور پوری اور صوفی عبداللہ (ساکن ماموں کانجن ) کا شمار انہی برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی تبلیغ اور صالحیت سے متاثر ہو کر جہاں بے شمار بے عمل مسلمان باعمل ہوئے وہاں بہت سے غیر مسلمانوں نے کفر کی راہ ترک کر کے اسلام کی راہ اختیار کی۔ اسی طرح آج سے سینکڑوں برس قبل کے برصغیر میں بہت سے بزرگان دین اور صوفیائے عظام کی مساعئی تبلیغ سے لاتعداد غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا۔ ان صوفیا ءمیں شیخ علی ہجویری، شیخ مسعود باب فرید الدین گنج شکر، شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی، شیخ نظام الدین اولیاء، شیخ معین الدین اجمیری اور دیگر بہت سے حضرات شامل ہیں۔ ان میں سے کبھی کسی نے اپنے آپ کو نہ بزرگ قراردیا، نہ کسی نے صوفی کہلایا، اور نہ کسی نے متقی ہونے کا اعلان کیا۔ چونکہ وہ پرہیز گار، عبادت گزار اور زہد پیشہ لوگ تھے، اس لیے برصغیر کی مذہبی اور دینی تاریخ کی کتابوں میں انھیں”صوفیا“ لکھا گیا۔ ان کے قول و عمل کے بعض پہلوؤں سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور شرعی حدود میں رہ کر اختلاف کرنا
Flag Counter