Maktaba Wahhabi

632 - 665
کوئی بری بات نہیں، لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ ان کی تعلیم کو بعض لوگوں نے بگاڑ کر پیش کیا اور بگاڑ کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ جس طرح لوگوں نے بعض مصالح کی بنا پر حدیثیں گھڑ لیں اور ایسی باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیں۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائیں، اسی طرح بزرگان دین کی تعلیم میں بھی اپنے دنیوی مفاد کی خاطر غلط باتیں داخل کردی گئیں۔ ماہرین فن حدیث پر اللہ تعالیٰ کی لاکھ لاکھ رحمتیں ہوں کہ انھوں نے موضوع احادیث کی نشاندہی فرمادی۔ یہ فقیر اللہ تعالیٰ سے معافی اور قارئین کرام سے معذرت خواہ ہے کہ من گھڑت باتوں کو”احادیث “قراردے رہا ہے، لیکن مجبوری یہ ہے کہ موضوعات کو”احادیث“ہی لکھا جاتا ہے۔ یعنی موضوع بھی ہیں اور احادیث بھی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمیں خود ہی سوچنا چاہیے کہ بزرگان دین کی تعلیمات کے کن کن حصوں کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا۔ ہے۔ان کی کتابوں کی عبارتیں بھی بدلی گئی ہونگی۔ بعض حضرات چمٹے بجانے اور دھونی رمانے والوں کو”صوفی “قراردیتے ہیں۔ ان کو صوفی کہنا اس لفظ کی توہین ہے۔ بہر حال اس فقیر کا مطالعاتی اور ذاتی رابطہ ان صوفیاء سے پڑا ہے جو عالم بھی تھے اورمتقی بھی۔ بحمد اللہ غلط کردار”صوفیوں“سے نہیں پڑا۔ سینکڑوں برس قبل کے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں صوفیاء کی کوششوں سے انکار بہت مشکل ہے۔ذرہ غور فرمائیے صدیوں پیشتر اجمیر اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں معروف معنی کے کس عالم دین اسلام کی اشاعت کے لیے گئے تھے؟۔”فرید کوٹ“ کا تو نام ہی بابا فرید الدین کے نام پر رکھا گیا ہے۔ بہر کیف میرے خیال میں یہ مسئلہ بہت نازک ہے۔ ہمارے علمائے کرام کو اس موضوع کی اصل کتابیں پڑھ کر ہی اظہار رائے کرنا چاہیے اور یہ زیادہ تر کتابیں فارسی زبان میں ہیں اور فارسی زبان کی کتابوں کا مطالعہ علمائے کرام کے لیے نہایت آسان ہے۔ جو چیزیں الحاقی یا غلط ہیں، انھیں چھوڑ دیجیے۔ لیکن بزرگوں کا ذکر احترام سے کیجیے۔ مولانا صلاح الدین مقبول احمد کی خطابتی، تدریسی اور تصنیفی و تالیفی خدمات کا میدان ماشاء اللہ بہت وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے دین کی خدمت کے مزید مواقع عطا فرمائے اور انھیں صحت و عافیت کی نعمت سے نوازے۔آمین۔
Flag Counter