Maktaba Wahhabi

113 - 200
سوائے امام کے، تاکہ جو لوگ جمعہ پڑھنا چاہیں انھیں وہ جمعہ پڑھائے۔ ان کا استدلال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ ’’وَاِنَّا مُجَمِّعُوْنَ‘‘ سے ہے کہ ہم تو ضرور جمعہ پڑھیں گے۔ جبکہ شافعیہ کے نزدیک یہ رخصت شہر والوں کے لیے نہیں بلکہ صرف ان دیہات والوں کے لیے ہے (جن کے یہاں جمعہ نہ ہوتا ہو) ان کا استدلال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے ہے کہ مدینہ طیبہ کے نواحی گاؤں (عوالی مدینہ) کے لوگوں میں سے جو شخص نماز جمعہ کا انتظار کرنا چاہے کرلے اور جو لوٹ جانا چاہے لوٹ جائے میں نے اسے اجازت دی۔ شافعیہ کا کہنا ہے کہ نواحی دیہات کے لوگوں کا شہر میں آکر عید پڑھنا، پھر واپس اپنے گھروں کو لوٹنا اور جمعہ کے لیے دوبارہ شہر آنا باعث مشقت ہے اور مشقت سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کے بقول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور جمہور اہل علم کا قول یہی ہے۔ اور مالکیہ میں سے مطرف، ابن وہب اور ماجشون نے امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جمعہ ضروری ہے اور یہی مسلک احناف کا بھی ہے، جبکہ معروف محقق و مجتہد امام شوکانی نے نیل الاوطار میں، برصغیر کے معروف عالم اور والی ریاست بھو پال علامہ نواب صدیق حسن خان نے الروضۃ الندیۃ میں اور شیخ احمد عبدالرحمان البنا نے بلوغ الامانی شرح الفتح الربانی میں دلائل وبراہین سے ثابت کیا ہے کہ نماز جمعہ کی رخصت سب کے لیے ہے، شہر کا ہو یا گاؤں کا، عوام الناس میں سے ہو یا امام و حاکم، البتہ شیخ البنا نے اتنا لکھا ہے کہ شہر والوں کے لیے جمعہ واجب تو نہیں البتہ مستحب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت
Flag Counter