Maktaba Wahhabi

110 - 702
کے کہنا حدیث مرفوع سے مستنبط ہے۔ اس واسطے کہ روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے: ’’قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : ما حسدتکم الیھود علی شيء ما حسدتکم علی آمین، فأکثروا من قول آمین‘‘[1] رواہ ابن ماجہ یعنی فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ نہیں حسد کیا یہود نے تم لوگوں کے ساتھ کسی فعل کے کرنے سے جس قدر کہ حسد کرتے ہیں تم لوگوں کے آمین کہنے سے۔ پس بہت کثرت کر و آمین کہنے کی۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک آمین بالجہر کہی نہ جاوے اور کانوں تک یہود کے آواز اس کی نہ پہنچے جب تک صورت حسد کی نہیں ہو سکتی۔ اور امام بخاری نے ’’باب جہر المأموم بالتأمین‘‘ میں روایت کی ہے: ’’عن أبي ھریرۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: إذا قال الإمام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} فقولوا: آمین، فإنہ من وافق قولہ قول الملائکۃ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘[2] رواہ البخاري [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} کہے تو تم لوگ ’’آمین‘‘ کہو۔ کیونکہ جو کوئی ملائکہ کے قول کی موافقت کرتا ہے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔ اس کی روایت بخاری نے کی ہے] پس لفظ (( قولوا )) سے جہر قول بالتامین مراد ہے اور مؤید اس کے ہے عمل حضرت ابوہریرہ کا، کہ روایت کیا اس کو شیخ بدرالدین عینی نے کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں بیہقی سے: ’’وکان أبو ھریرۃ مؤذناً لمروان، فاشترط أن لا یسبقہ بالضالین حتی یعلم أنہ قد دخل في الصف، فکان إذا قال مروان: ولا الضالین۔ قال أبو ھریرۃ: آمین، یمد بھا صوتہ، وقال: إذا وافق تأمین أھل الأرض تأمین أھل السماء غفر لھم‘‘ رواہ البیہقي۔ کذا في العیني۔[3]
Flag Counter