Maktaba Wahhabi

14 - 702
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم مقدمہ عربی زبان میں ’’فَتْوی‘‘ یا ’’فُتْوی‘‘ اور ’’فُتْیا‘‘، ’’اِفتاء‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اظہار و بیان اور رائے دہندگی کے ہیں ۔[1] مصدری معنی (رائے دہندگی) کے علاوہ خود ’’رائے‘‘ اور ’’رائے دہندہ کے کام‘‘ پر بھی ’’فَتْوی‘‘ اور ’’فُتْیا‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان دونوں کے درمیان فرق بیان کیاہے۔ چنانچہ ’’فَتْوی‘‘ کو صرف دی ہوئی رائے کا مترادف قرار دیاہے اور ’’فُتْیا‘‘ کو باقی دونوں معانی کے لیے خاص بتایا ہے۔[2] مگر لغت کی کتابوں سے اس تفریق کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں ’’فَتْوی‘‘ کے بجائے لفظ ’’فُتْیا‘‘ کا استعمال عربوں کے یہاں زیادہ رہا ہے۔ کتبِ حدیث میں بھی ’’فَتْوی‘‘ کے بجائے ’’فُتْیا‘‘ کا لفظ ملتا ہے۔[3] لغت کی کتابوں میں کسی ایسی عبارت یا شعر کا ذکر نہیں ، جس میں ’’فتویٰ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہو۔ اگرچہ علما و فقہا نے بعد میں دونوں ہی الفاظ عام طورپراستعمال کیے ہیں ۔ اس کی جمع ’’فتاویٰ‘‘ یا ’’فتاوِی‘‘ معروف رہی ہے۔[4] قرآن مجید میں بھی گیارہ مقامات پر اس کے مشتقات وارد ہوئے ہیں ، جو استفتا (سوال پوچھنے) اور افتا (جواب کی وضاحت کرنے) کے مختلف صیغے ہیں ۔[5] اسی سے پوچھنے والے کو ’’مُستَفتی‘‘ اور فتوی دینے والے کو ’’مفتی‘‘ کہتے ہیں ۔[6] اصطلاح میں فتوے سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے، جو کسی سائل کے جواب میں کوئی عالم دین ا ور احکام شریعت کے اندر بصیرت
Flag Counter