Maktaba Wahhabi

125 - 702
اور فقہائے حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تکرار جماعت ساتھ اذان ثانی کے اس مسجد میں کہ امام و موذن وہاں مقرر ہوں ، مکروہ ہے، اور تکرار اس کا بغیر اذان کے مکروہ نہیں ۔ بلکہ امام ابویوسف سے منقول ہے کہ اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولی پر نہ ہو توکچھ کراہت نہیں اور محراب سے عدول کرنے میں ہیئت بدل جاتی ہے۔ ’’بحر الرائق شر ح کنزالدقائق‘‘ میں ہے: ’’ومنھا حکم تکرارھا في مسجد واحد، ففي المجمع: لا یکررھا في مسجد محلۃ بأذان ثان، وفي المجتبٰی: و یکرہ تکرارھا في مسجد بأذان وإقامۃ‘‘[1] انتھی مختصرا۔ [ اور اس میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ہی مسجد میں نماز کی تکرار کا حکم، تو مجمع میں ہے کہ ایک ہی مسجد میں دوبارہ اذان کے جماعت نہ کرائے اور مجتبیٰ میں ہے کہ اذان و اقامت کے ساتھ مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا مکروہ ہے۔ مختصراً۔ ختم شد] اور ’’شرح منیتہ المصلي‘‘ میں ہے: ’’وإذا لم یکن للمسجد إمام ومؤذن راتب فلا یکرہ تکرار الجماعۃ فیہ بأذان وإقامۃ عندنا، بل ھو الأفضل، أما لوکان لہ إمام و مؤذن فیکرہ تکرار الجماعۃ، وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰه : إذا لم تکن علی ھیئۃ الأولیٰ لا یکرہ وإلا یکرہ، وھو الصحیح‘‘ [اور جب کسی مسجد میں وظیفہ یاب امام اور موذن نہ ہو تو اس میں تکرار جماعت ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ہمارے نزدیک مکروہ نہیں ، بلکہ یہ افضل ہے، لیکن اگر وہاں وظیفہ یاب امام و موذن معین ہو تو تکرار جماعت مکروہ ہے۔ ابو یوسف سے منقول ہے کہ اگر پہلی صورت نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے اور بصورت دیگر مکروہ ہے، اور یہی درست ہے] اور ’’طوالع الأنوار حاشیہ در المختار‘‘ میں ہے: ’’کراھۃ الجماعۃ في غیر مسجد الطریق مقیدۃ بما إذا کانت الجماعۃ الثانیۃ بأذان وإقامۃ لا بإقامۃ فقط، وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰه : إذا لم تکن علی ھیئۃ الأولی لا تکرہ وإلا تکرہ، وھو الصحیح، و بالعدول
Flag Counter