Maktaba Wahhabi

163 - 702
یہی حدیث عبدا للہ بن عمر کی اس باب میں لائے ہیں ۔ وھذہ عبارتہ: ’’الترھیب من المرور بقبور الظالمین‘‘[1] انتھی [ظالمین کی قبروں کے پاس سے گزرتے ہوئے خوف دلانا۔ ختم شد] اور قدیم الایام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے اس وقت تک یہی دستور و عمل اسلامی رہا کہ مسلمانوں کا مقبرہ غیر مسلمانوں کے مقبرے سے علیحدہ رہے، کیونکہ شارع نے اموات مسلمین کے احترام کرنے کا حکم دیا ہے اور اموات کفار کا کچھ بھی احترام نہیں ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب منعقد کیا ہے: ’’باب: ھل ینبش قبورمشرکي الجاھلیۃ ویتخذ مکانھا مساجد؟‘‘ [کیا دورِ جاہلیت کے مشرکین کی قبروں کو اکھاڑنا جائز ہے اور کیا ان قبروں پر مساجد بنائی جاسکتی ہیں ؟] اور اس باب میں حدیث قصہ بناء مسجد نبوی کا لائے ہیں ۔ اس کا جملہ اخیرہ یہ ہے: ’’قال أنس: فکان فیہ ما أقول لکم، قبور المشرکین، وفیہ خرب، وفیہ نخل، فأمر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم بقبور المشرکین فنبشت، ثم بالخرب فسویت۔۔‘‘ الحدیث[2] [ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : اس میں مشرکین کی قبریں تھیں ۔ اس میں بیابان بھی تھا اور اس میں کھجور کا پیڑ بھی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کے بارے میں حکم دیا تو وہ اکھاڑی گئیں اور بیابان جگہ زمین کے برابر کردی گئی۔۔۔ الحدیث] اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ قبور مشرکین کے ساتھ کچھ بھی احترام نہیں ہے، بلکہ وقت ضرورت کے مشرکین کی قبر کو اکھاڑ کر زمین کو برابر کر دینا جائز ہے۔ اور صحیح بخاری کے ’’باب ما جاء في قبر النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم و أبي بکر و عمر‘‘ میں ہے: ’’قل: یستأذن عمر بن الخطاب فإن أذنت لي فادفنوني، وإلا فردوني إلی مقابر المسلمین‘‘[3] انتھی [کہو: عمر بن خطاب اجازت مانگتا ہے۔ اگر انھوں نے اجازت دے دی تو مجھے وہیں دفن
Flag Counter