Maktaba Wahhabi

225 - 702
کے درست معلوم ہوتی ہے۔ ’’قال أحمد وإسحاق: إذا بلغت الیتیمۃ تسع سنین فزوجت فرضیت فالنکاح جائز، ولا خیار لھا إذا أدرکت۔ واحتجا بحدیث عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم بنیٰ بھا، وھي بنت تسع سنین، و قد قالت عائشۃ رضی اللّٰه عنہا : إذا بلغت الجاریۃ تسع سنین فھي امرأۃ ‘‘ ھکذا في عون المعبود شرح سنن أبي داود لشیخنا العلامۃ الفھامۃ أبي الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادي۔ دام فیضہ۔[1] [احمد اور اسحاق نے کہا ہے کہ جب یتیم بچی نو سال کی ہوجائے اور اس کی شادی کردی جائے اور وہ راضی ہو تو نکاح جائز ہے، بلوغت کے بعد اس کو (انکار) کا اختیار نہیں ہے۔ بطور دلیل ان دونوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ نو سال کی تھیں اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات کہی ہے کہ جب کوئی بچی نو برس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔ ایسا ہی ابو داود کی شرح ’’عون المعبود‘‘ میں ہے جس کے مولف ہمارے استاد علامہ ابوالطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی ہیں ] اس عبارت بالا سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر یتیمہ نا بالغہ کا نکاح اس کے عدم رضا سے کر دیا جائے، بعد ازاں وہ یتیمہ راضی ہوجائے تو بھی وہ نکاح جائزہے، چہ جائیکہ اس سوال میں اس ہند ہ یتیمہ کی رضا مندی و اجازت قبل عقد نکاح کے ثابت ہے، پائی جاتی ہے۔ اور ولی مذکور کے ماسوا دیگر اولیاء کا موجود ہونا اور اس پر راضی رہنا، یہ بات بھی ثابت ہے ۔اور حکم بالغہ کا اس ہندہ پر جاری ہے۔ اور اغلب گمان یہ کہ حقیقت میں یہ ہندہ بالغہ ہے۔ پس با وجود ان وجوہات کے یہ نکاح کیوں کر درست نہ ہو؟ باقی رہی یہ با ت کہ اس لڑکی کے نانا اور نانی راضی نہیں ہیں تو ان کے عدم رضا سے یہ نکاح نادرست نہیں ہو سکتا ہے۔ اولاً جمہور علماء کے نزدیک ذ وی الارحام ولی نہیں ہے اور نانا ذوی الارحام میں شامل ہے اور نانی اگرچہ ذوی الارحام میں شامل نہیں ہے تاہم یہ عصبہ[2] بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ’’بلوغ المرام‘‘ میں ہے :
Flag Counter