Maktaba Wahhabi

232 - 702
لقولہ تبارک وتعالی: {وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ}[الطلاق: ۴] [اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے] وفسرہ النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم بقولہ: ’’لا توطأ حامل حتی تضع، ولا غیر ذات حمل حتی تحیض حیضۃ‘‘ رواہ أحمد وأبو داود و الحاکم من حدیث أبي سعید الخدري،[1] وروی أحمد وأبو داود والترمذي و ابن حبان من حدیث رافع بن ثابت أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: ’’لا یحل لأحد یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر أن یسقي ماء ہ زرع غیرہ‘‘[2] [اس کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول سے فرمائی ہے کہ کسی حاملہ سے وطی نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ وہ بچہ جن دے اور بغیر حمل والی سے بھی وطی نہیں کی جائے گی، حتیٰ کہ اس کو ایک حیض آجائے ۔ اس کی روایت احمد ، ابو داود اور حاکم نے ابو سعید خدری کی حدیث سے کی ہے۔ احمد، ابوداود، ترمذی اور ابن حبان نے رافع بن ثا بت کی حدیث سے روایت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو کہ اپنے پانی سے کسی اور کی کھیتی سیراب کرے] لیکن اگر کسی ایک شخص سے وہ عورت مبتلائے زنا تھی اور اب اسی مرد سے نکاح کرے تو اب اس کو استبرارِ رحم یا وضعِ حمل کے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس حالت میں ’’سقي الماء في غیر زرع‘‘ نہیں ہے۔ 2۔عورت زانیہ کسی کی منکوحہ ہے اور شوہر سے تعلق بھی تھا اور اب شوہر نے انتقال کیا، اس صورت میں اگر عورت حاملہ نہیں ہے تو اس کو شوہر کی وفات کی عدت پوری کرنا ضروری ہے۔ لقولہ تعالی: { وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا} [البقرۃ : ۲۳۴ ] [تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار
Flag Counter