Maktaba Wahhabi

234 - 702
چکی ہوں ۔ کیا اس صورت میں مسماۃ مذکورہ کا یہ کہنا اور معاف کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور واضح رہے کہ مسماۃ مذکورہ کے ورثا ء نسبی بھی ہیں اور ایک لڑکی نا بالغ اور ایک خاوند مذکور۔ جواب : اس صورت میں مسماۃ مذکورہ کا بحالت صحت میں فیما بینھا وبین اللّٰه اپنا مہر معاف کر دینا جائز و درست ہے اور بحالت مرض اس کا یہ اقرار کرنا کہ میں بحالت صحت معاف کرچکی ہوں ، بھی جائز و درست ہے۔ { فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا} [النساء: ۴] [ ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ] صحیح بخاری مصری جلد (۳) صفحہ (۷۹) میں ہے: ’’قال الحسن: أحق ما یصدق بہ الرجل آخر یوم من الدنیا و آخر یوم من الآخرۃ، وقال إبراھیم والحکم: إذا أبرأ الوارث من الدین بریٔ، وقال الشعبي: إذا قالت المرأۃ عند موتھا: إن زوجي قضاني و قضیت منہ جاز، وقد قال النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم : إیاکم والظن فإن الظن أکذب الحدیث‘‘[1] انتھی [حسن نے کہا: سب سے بڑا سچ وہ ہے جو آدمی دنیا کے آخری وقت میں کہے اور آخرت کے آخری دن میں ۔ ابراہیم اور حکم نے کہا ہے : جب وارث قرض سے بری کردے تو وہ بری ہوجاتا ہے اور شعبی نے کہا ہے: جب عورت نے اپنی موت کے وقت کہا کہ میرے شوہر نے میرے ساتھ معاملہ پورا کیا اور میں نے اس کے ساتھ تو جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ گمان سے بچو، کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے] وفي فتح الباري جلد ۴ صفحۃ ۲۵: و ’’احتج من أجاز مطلقا بما تقدم عن الحسن أن التھمۃ في حق المحتضر بعیدۃ، وبالفرق بین الوصیۃ والدین، لأنھم اتفقوا علی أنہ لو أوصی في صحتہ لوارثہ بوصیۃ، وأقر لہ بدین ثم رجع، أن رجوعہ من الإقرار لا یصح، بخلاف الوصیۃ فیصح رجوعہ عنھا، واتفقوا علی أن المریض إذا أقر لوارث صح إقرارہ مع أنہ یتضمن لہ بالمال، وبأن مدار الأحکام علی الظاھر، فلا
Flag Counter