Maktaba Wahhabi

257 - 702
’’لأن الشرع ورد بہا مطلقاً، و لم یحدھا بزمن ولا مقدار، فدل علی أنہ ردھم إلی العرف، فإذا ارتضع، ثم قطع باختیارہ أو قطع علیہ فہي رضعۃ‘‘ (و أیضاً فیہ) و’’إن حلب في إناء خمس حلبات في خمسۃ أوقات، ثم سقي للطفل دفعۃ واحدۃ کانت الرضعۃ واحدۃ اعتباراً لشربہ لہ فإن سقاہ جرعۃ بعد أخری متتابعۃ فرضعۃ في ظاھر قول الخرقي لأن المعتبر في الرضعۃ العرف، وھم لا یعدون ھذا رضعات‘‘[1] [کیونکہ شرع اس بارے میں مطلق وارد ہوئی ہے۔ اس نے زمانہ اور مقدار کی تحدید نہیں کی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس نے یہ عرف عام پر چھوڑ دیا ہے ، پس جب بچے نے دودھ پیا پھر اپنی مرضی سے یہ سلسلہ منقطع کردیا یا اس کو الگ کردیا گیا تو وہ ایک ’’رضعۃ‘‘ ہے۔ اگر کسی برتن میں پانچ اوقات میں پانچ بار دودھ دوہا گیا، پھر بچے کو ایک ہی دفعہ میں پلادیا گیا تو یہ اس کے پینے کا اعتبار کرکے ایک رضعۃ ہے اور اگر اس کو گھونٹ گھونٹ کرکے یکے بعد دیگرے پلایا تو خرقی کے ظاہر قول کے مطابق اس کی ایک رضاعت ثابت ہوگی، کیونکہ رضاعت میں عرف معتبر ہے اور وہ لوگ اسے متعدد رضعات شمار نہیں کرتے] اور قریب قریب اسی کے ’’شرح المنتہی‘‘ فقہ حنبلیہ میں ہے۔[2] وفي زاد المعاد لھدي خیر العباد للإمام ابن القیم رحمہ اللّٰه : ’’الرضعۃ فعلۃ من الرضاع، فھي مرۃ بلا شک کضربۃ وجلسۃ وأکلۃ، فمتی التقم الثدي فامتص منہ، ثم ترکہ باختیارہ من غیر عارض، کان ذلک رضعۃ، لأن الشرع ورد بذلک مطلقا فحمل علی العرف، والعرف ھذا، والقطع العارض لتنفس أو استراحۃ یسیرۃ أو لشيء یلھیہ، ثم یعود عن قریب لا یخرجہ عن کونہ رضعۃ واحدۃ، کما أن الأکل إذا قطع أکلتہ بذلک ثم عاد عن قریب لم یکن ذلک أکلتین بل
Flag Counter