Maktaba Wahhabi

283 - 702
کیا جاوے تو اس کا وبال اور ورثہ کی حق تلفی کا مواخذہ ضرور اس مورث کی گردن پر ہوگا۔ جواب6 : ادائے دین متوفی کے متروکہ میں سے ضرور ہے۔ اسی واسطے اللہ جل شانہ نے تقسیم میراث کے ساتھ ہی ہر جگہ یہی ارشاد فرمایا ہے کہ یہ تقسیم ادائے دین اور وصیت کے بعد ہونی چاہیے: { مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ} [النساء: ۱۲] { مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ} [النساء: ۱۲] { مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْ دَیْنٍ} [النساء: ۱۲] ’’و عن أبي سعید قال: أصیب رجل علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم في ثمار ابتاعھا فکثر دینہ، فقال: تصدقوا علیہ فتصدق الناس علیہ، فلم یبلغ ذلک وفاء دینہ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم لغرمائہ: خذوا ما وجدتم، و لیس لکم إلا ذلک‘‘ رواہ الجماعۃ إلا البخاري۔ ’’ترجمہ: روایت ہے ابی سعید سے کہ کہا پہونچایا گیا نقصان ایک شخص بیچ زمانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میوے کے خریدا تھا اس کو۔ پس بہت ہوگیا قرض اس پر۔ پس فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرو اس پر۔ پس صدقہ دیا لوگوں نے اس کو۔ پس نہ پہنچا وہ صدقہ موافق قرض اس کے کے۔ پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واسطے قرض خواہوں اس کے کہ لے لو جو پاؤ تم اور نہیں واسطے تمھارے مگر یہ۔ روایت کیا اس کو جماعت نے سوائے بخاری کے۔‘‘ (مشکوٰۃ باب الإفلاس والإنظار، ف ۱) حررہ العبد الضعیف أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادي عفی عنہ محمد شمس الحق أبو الطیب محمد أشرف عفی عنہ العظیم آبادی محمد أحمد عفی عنہ اعظم گڑھی أبو عبد اللّٰه محمد إدریس العظیم آبادي۱۳۱۱ محمد أیوب عبد الفتاح العظیم آبادی ۱۳۱۹
Flag Counter