Maktaba Wahhabi

426 - 702
قال الحافظ في الإصابۃ في تمییز الصحابۃ (۳/ ۲۸۱): ’’إذا ثبت أنہ لقي النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم فھو صحابي علی الراجح، وإذا ثبت أنہ لم یسمع منہ فروایتہ عنہ مرسل صحابي، وھو مقبول علی الراجح، و قد أخرج لہ النسائي عدۃ أحادیث، وذلک مصیر منہ إلی إثبات صحبتہ، و أخرج لہ أبو داود حدیثا واحداً، وقال: طارق رأی النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ولم یسمع منہ شیئا، و قال أبو داود الطیالسي: حدثنا شعبۃ عن قیس بن مسلم عن طارق بن شھاب قال: رأیت النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم وغزوت في خلافۃ أبي بکر، وھذا إسناد صحیح، وأخرج البغوي من طریق شعبۃ عن قیس بن مسلم عن طارق قال: رأیت النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم الحدیث‘‘ انتھی(ملخصاً) [ بندۂ ضعیف ابوالطیب عفی عنہ نے کہا : الخطابی نے ’’معالم السنن‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کی سند اس طرح سے (مضبوط) نہیں ہے اور طارق بن شہاب کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع درست نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے۔ ختم شد۔ العراقی نے کہا ہے کہ اگر ان کی صحبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو حدیث صحیح ہے اور یہ ایک صحابی کی مرسل روایت ہے اور وہ (مرسل صحابی) جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ اس کی مخالفت صرف ابواسحاق الاسفرائنی نے کی ہے، بلکہ بعض احناف نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ مرسل صحابہ حجت ہے۔ ختم شد۔ حافظ نے ’’الإصابۃ في تمییزالصحابۃ‘‘ (ص: ۲۸۱) میں کہا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہے تو راحج یہی ہے کہ وہ صحابی ہیں اور جب یہ ثابت ہوجائے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت نہیں کی تو ان کی روایت مرسل صحابی ہے اور راجح یہی ہے کہ وہ روایت قبول کی جائے۔ نسائی نے ان کی متعدد احادیث کی تخریج کی ہے، جس سے امام نسائی کا رجحان ان کے اثباتِ صحبت کی طرف ظاہر ہوتا ہے۔ ان کی ایک حدیث کی تخریج ابو داود نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ طارق نے کہا کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، لیکن کچھ سنا نہیں ۔ ابو داود الطیالسی نے کہا
Flag Counter