Maktaba Wahhabi

466 - 702
نماز درست ہے‘‘ تو قدوری کا مقصد یہ ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے اور ظہر کی نماز بھی صحیح ہے اور تو یہ حرام اس لیے ہے کہ اس نے فرض جمعہ چھوڑا ہے۔ نماز ظہر کے صحیح ہونے کے دلائل ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ ہمارے اصحاب نے ذکر کیا ہے کہ جمعہ، ظہر سے بھی زیادہ مؤکد فریضہ ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ ’’میں کہتا ہوں : ہمارے زمانے میں جہالت کی بنا پر اکثر ہوتا ہے اور ان کے جہل کا منشا جمعہ کے بعد چار رکعت نماز ظہر کی نیت سے پڑھنا ہے۔ جمعے کی صحت میں شک کی بنیاد پر اس کو بعض متاخرین نے وضع کیا ہے، اس روایت کو سبب بناکر جس میں مذکور ہے کہ ایک ہی شہر میں متعدد جمعے نہیں ہوسکتے۔ یہ روایت قابل اختیار نہیں ہے اور نہ یہ قول (جمعے کے بعد چار رکعت نماز پڑھنا ) ابو حنیفہ اور صاحبین سے مروی ہے۔ ختم شد] پس مرد متبع سنت وہ ہے جو کہ اس بدعت و محدث فی الدین کی بیخ کنی کرے اور لوگوں کو اس ظہر احتیاطی کے پڑھنے سے روکے۔ ’’عن عائشۃ قالت: قال النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم : (( من أحدث في أمرنا ھذا مالیس منہ فھو رد )) [1] متفق علیہ۔ [ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے معاملے میں کوئی نئی چیز گھڑی جو ہماری شریعت میں نہیں ہے تو وہ قابل رد ہے] وعن جابر قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : (( أما بعد! فإن خیر الحدیث کتاب اللّٰه ، وخیر الھدي ھدي محمد، وشر الأمور محدثاتھا، وکل بدعۃ ضلالۃ )) [2] رواہ مسلم۔ [ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اما بعد! یقینا سب سے اچھی بات کتاب ا للہ ہے اور سب سے اچھا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے اور سب سے برے امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے] وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین۔ وصلی اللّٰه تعالی علی حبیبہ
Flag Counter