Maktaba Wahhabi

589 - 702
دینے کی ممانعت کا سبب اس کے گوشت کی خرابی نہیں ، بلکہ تَیس دو سال کے نر جانور کو کہتے ہیں جو جفتی کے قابل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس سے افزایشِ نسل کا فائدہ عملاً ناممکن ہے اور زکات میں فائدہ مند چیز نکالنا لازم ہے، چاہے فائدہ دودھ کی شکل میں ہو یا نسل کی افزایش کی شکل میں ، اور تَیس میں ان میں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ قاموس میں ہے : ’’التَیس: الذکر من الظباء والمعز و الوعول، إذا أتی علیہ سنۃ‘‘[1] انتھی [یعنی ہرن، بھیڑ اور پہاڑی بکریوں کے نر کو تَیس کہتے ہیں جب وہ سال بھر کا ہوجائے] ’’مصباح المنیر‘‘ میں ہے: ’’التَیس الذکر من المعز إذا أتی علیہ حول، وقبل الحول ھو جدي‘‘[2]انتھی [یعنی تَیس نر بھیڑ اور دنبے کو کہتے ہیں جب وہ سال بھر کا ہو جائے۔ سال سے چھوٹا ہو تو اسے ’’جدی‘‘ کہتے ہیں ۔ختم شد] حافظ ابن حجر ’’ہدي الساري مقدمۃ فتح الباري‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’تیس ھو الذکر الثني من المعز الذي لم یبلغ حد الضراب‘‘[3] انتھی [ تَیسْ بھیڑ کے نر دو دانتے کو کہتے ہیں جو ابھی افزایشِ نسل کے قابل نہ ہو] زرقانی شرح موطأ امام مالک میں فرماتے ہیں : ’’ولا یخرج في الصدقۃ تیس، ھو فحل الغنم، أو مخصوص بالمعز، لأنہ لا منفعۃ فیہ لدر ولا نسلٍ، وإنما یؤخذ في الزکاۃ ما فیہ منفعۃ للنسل، قالہ الباجي‘‘[4] انتھی [یعنی جانوروں اور بھیڑوں کے نر کو تیس کہتے ہیں ۔ چونکہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس سے نہ دودھ حاصل ہوتا ہے اور نہ نسل کی افزایش ہوتی ہے، اس لیے اسے زکات میں دینے
Flag Counter