Maktaba Wahhabi

67 - 702
سے ثابت کیا کہ مطبوعہ نسخے میں نام صحیح طور پر درج نہیں ہے۔ اس طرح کی متعدد مثالوں سے ان کی دقتِ نظر، کثرتِ مطالعہ اور وسعتِ علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی کے فضل و کمال کا ان کے معاصرین اور تلامذہ نے بھی مکمل اعتراف کیا ہے۔ مولانا کی مختلف کتابوں کے آخر میں جو قطعاتِ تاریخ، تاریخِ طبع اور اردو، فارسی، عربی کے متعدد قصیدے شامل ہیں ، ان میں بھی ان کے فضل و کمال کااعتراف کیا گیا ہے۔ علماے اہل حدیث کے علاوہ دوسرے طبقہ و مسلک کے علما نے بھی ان کی تحسین و تعریف کی ہے اور ان کے وسعتِ مطالعہ اور عبورِ فن کی ستایش کی ہے۔ ان کے اساتذہ بھی ان کے علم و فضل کے معترف تھے۔ میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی نے اپنے بہت سے خطوط میں انھیں ’’جامع الحسنات والکمالات‘‘ اور ’’الفاضل النحریر، صاحب التقریر والتحریر، الحَبر الموفق‘‘ کے اوصاف سے خطاب کیا ہے۔ ایک دوسرے استاد شیخ حسین بن محسن یمانی کے الفاظ علامہ عظیم آبادی کے متعلق ملاحظہ فرمائیے: ’’شیخ الإسلام والمسلمین، إمام المحققین والأئمۃ المدققین، صاحب التآلیف المجیدۃ والتصانیف المفیدۃ، المشتھر بالفضائل في الآفاق، المحرز قصب الکمال في مضمارالسباق،العلامۃ الھمام‘‘ سید نذیر حسین محدث دہلوی عرف میاں صاحب کے فیض یافتہ تلامذہ میں سے علامہ شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی نے بہ توفیق الٰہی ایک قدم آگے بڑھایا اور تہیا فرمایا کہ مدارس میں صحیحین و سنن اربعہ کے جو متون پڑھائے جاتے ہیں ، ان کے شروح و حواشی بھی ایسے ہونے ضروری ہیں جو حسبِ منشاے شاہ ولی اللہ، اصحاب الحدیث کی ترجمانی کی خدمت سر انجام دیں اور اس طرح مصنفین صحیحین و سنن اربعہ کے مقصد اور فقہی و فنی حیثیت کو بروئے کار لایا جائے۔ لہٰذا علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے سنن ابی داود کا انتخاب فرمایا اور اس کی دو ایسی شرحیں (غایۃ المقصود۔ مبسوط، اور عون المعبود۔ مختصر) لکھیں ، جو بہ لحاظ متنِ حدیث اور بہ لحاظ فقہ الحدیث آٹھویں صدی ہجری کے کسی محدث و محقق کی تالیف معلوم ہوتی ہیں ۔ ہرحدیث کا فنی مرتبہ، ابواب و اسانید کا تدریسی حل، جو ہمارے مدارس کے اعتبار سے بالکل نیا انداز ہے اور ایسا مفید ہے کہ جس کی بعد میں آنے والے اصحاب الرائے قسم کے شارحین نے بھی پیروی فرمائی ہے۔ حدیث پاک سے فقہی استنباطات کی راہ بھی ان شرحوں میں و ا
Flag Counter