Maktaba Wahhabi

99 - 702
للتلھي، فإن التلھي حرام قطعا في التمذھب کان وغیرہ، إذ لا واجب إلا ما أوجبہ اللّٰه تعالی، والحکم لہ، ولم یوجب علی أحد أن یتمذھب بمذھب رجل من الأمۃ، فإیجابہ تشریع جدید‘‘[1] انتھی [اور کہا گیا ہے کہ استمرار واجب نہیں ہے اور انتقال درست ہے۔ یہی چیز برحق ہے، جس پر کہ ایمان لانا چاہیے اور اس پر اعتقاد رکھنا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ انتقال لہو و لعب کے لیے ہو، کیونکہ لہو و لعب قطعاً حرام ہے ،چاہے وہ مذہب کے بارے میں ہو یا اس کے علاوہ۔ کیونکہ واجب وہی کچھ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے واجب کہا ہے اور اسی کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پر واجب نہیں کیا ہے کہ وہ امت میں سے کسی شخص کے مذہب سے چمٹا رہے، لہٰذا اس کا ایجاب تشریع جدید ہے۔ ختم شد] علامہ ابن امیر حاج نے ’’شرح تحریر الأصول‘‘ میں لکھا ہے: ’’لو التزم مذھباً معینا کأبي حنیفۃ والشافعي قیل: یلزمہ، وقیل: لا، وھو الأصح‘‘[2] انتھی [ اور اگر اس نے کسی معین مذہب کا التزام کرلیا جیسے ابو حنیفہ اور شافعی، تو کہا گیا ہے کہ وہ اس کو لازم ہے اور ایک قول یہ ہے کہ لازم نہیں اور یہی درست ہے۔ ختم شد] علامہ شرنبلالی نے ’’عقد الفرید‘‘ میں لکھا ہے: ’’لیس علی الإنسان التزام مذھب معین‘‘[3] انتھی [کسی معین مذہب کا التزام انسان کے لیے ضروری نہیں ہے۔ختم شد] اور ’’طوالع الأنوار‘‘ میں مذکور ہے: ’’وجوب تقلید مجتھد معین لا حجۃ علیہ، لا من جہۃ الشریعۃ ولا من جہۃ العقل، کما ذکرہ الشیخ ابن الھمام من الحنفیۃ في فتح القدیر، و في کتابہ المسمی بتحریر الأصول، و بعدم وجوبہ صرح الشیخ ابن عبد السلام في
Flag Counter