Maktaba Wahhabi

115 - 391
’’وفي الباب‘‘ میں جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فہرست حروفِ تہجی کے مطابق ابواب کی تفصیل کے ساتھ مرتب کی اور اس کا نام ’’فہرست أسماء الصحابۃ الذین ذکرھم الترمذي تحت قولہ وفي الباب‘‘ رکھا۔ حافظ عبدالمعنم مرحوم نے مقدمہ تحفۃ الاحوذی کے ساتھ اس رسالے کو بھی شائع کر دیا۔ جو ۸۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہاں دو باتیں مزید قابلِ ذکر ہیں۔ ایک تو یہ کہ مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے مقدمہ، تحفۃ الاحوذی سے پہلے لکھا تھا، جیسا کہ تحفۃ الاحوذی کی ابتدا میں انھوں نے ذکر فرمایا ہے۔ البتہ اس مسودہ میں بعض مقامات پر بیاضات تھے اور بعض عناوین کے تحت بھی وہ کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ تکمیل شرح کے بعد مقدمہ کی طرف متوجہ ہوئے، مگر اس کی تکمیل کی نوبت نہ آئی کہ آپ کا انتقال ہو گیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردِ رشید مولانا عبدالصمد مبارکپوری رحمہ اللہ مدرس مدرسہ عالیہ مؤاعظم گڑھ نے اس کمی کا ازالہ کیا اور اس پر مزید نظر ثانی حضرت مولانا عبیداللہ رحمہ اللہ رحمانی شارح مشکوۃ نے فرمائی۔ جس کی تفصیل مولانا عبدالسمیع رحمہ اللہ نے کلمۃ الناشر میں بیان کر دی ہے۔ دوسری بات یہ کہ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے مقدمہ میں کتبِ احادیث کا تعارف ذکر کرنے کے ساتھ ان میں سے بعض اہم کتابوں کے بارے میں یہ نشاندہی بھی کی کہ یہ جرمنی کے کتب خانہ میں موجود ہیں۔ حضرت محدث کی اس وضاحت پر ایک حلقہ نے طوفان اٹھایا اور بڑے نازیبہ کلمات سے اس کی پھبتی اڑائی گئی۔ جس کا جواب جناب ڈاکٹر عین الحق قاسمی صاحب نے ’’محدث مبارکپوری حیات و خدمات‘‘ میں دیا اور اس کی وضاحت انھوں نے ایک مضمون میں بھی کی، جو ماہنامہ محدث بنارس ہند نور ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔ اسی طرح ہمارے فاضل دوست جناب ڈاکٹر ظفر اللہ
Flag Counter