Maktaba Wahhabi

121 - 391
6. خیر الماعون في منع الفرار من الطاعون: ۱۳۲۱ھ/ ۱۹۰۳ء اور ۱۳۲۲ھ/ ۱۹۰۴ء میں مبارکپور میں بھی طاعون کی وبا پھیلی تو کثرت اموات سے مبارکپور کی رونق اجڑ گئی اور کچھ لوگ سراسیمگی کی کیفیت میں مبارکپور کو خیرباد کہنے لگے۔ فرار من الطاعون کے جواز و عدم جواز کا جھگڑا بھی چل نکلا۔ اسی مسئلے کی وضاحت کے لیے مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’خیر الماعون في منع الفرار من الطاعون‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ایک مقدمہ اور ایک باب ہے، جس میں انھوں نے طاعون کے علاقے سے فرار کی ممانعت کا حکم کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ سے ثابت کیا ہے۔ یہ حصہ ۴۶ صفحات پر مشتمل ہے، جو ۱۵ مئی ۱۹۰۶ء میں رضوانی پریس کلکتہ سے مولوی ابو المحاسن فصیح الرحمان صاحب شاہ آبادی کی اعانت سے شائع ہوا۔ طاعون کی وبا کے ایام میں بعض علمائے کرام نے فرار من الطاعون کے جواز کا فتویٰ دیا کہ طاعون کے مقام سے نکل کر آس پاس کے باغوں اور جنگلوں وغیرہ میں جانا جائز ہے، حتی کہ مولانا محمد سلیم پھریاوی المتوفی ۱۳۲۴ھ/ ۱۹۰۶ء نے ایک مستقل کتاب لکھی کہ فرار کی ممانعت اقلیم سے نکلنے کی ہے۔ طاعون کی بستی سے فرار کی ممانعت نہیں، مگر اس کتاب پراپنے نام کے بجائے مولوی محمد عبداللہ مؤی کا نام لکھا۔[1] مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے غالباً انہی شبہات کے ازالے کے لیے خیر الماعون کا دوسرا حصہ تحریر کیا جو اس کتاب کا دوسرا باب ہے، جس میں طاعونی مقام سے بھاگنے والوں کے تمام اعذار کا پوری طرح شرح و بسط سے جواب دیا ہے۔ آخر میں ’’خاتمہ رسالہ‘‘ ہے، جس میں رفع طاعون کے لیے قنوت کرنے اور دعا کرنے کے جواز و عدم پر بحث ہے۔ یہ دوسرا حصہ ۴۰ صفحات پر مشتمل ہے، جو مطبع سعید المطابع
Flag Counter