Maktaba Wahhabi

207 - 391
آبائی مسلک کی بنا پر غیر مانوس تھا اور اپنے آپ کو وہاں اجنبی سا محسوس کرتا تھا۔ اساتذہ کرام کے علاوہ جماعت کے اکابرین اور اہلِ علم حضرات سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ البتہ سنن نسائی کی تعلیم کے دوران میں اس کے محشی حضرت محدث بھوجیانی سے غائبانہ تعارف، بلکہ یک گونہ عقیدت سی پیدا ہو گئی تھی۔ سنن نسائی کا میرے پاس وہ نسخہ تھا، جس کے حواشی میں حنفی مکتبِ فکر کو نمایاں کیا گیا تھا۔ مگر جب کبھی مولانا کی ’’التعلیقات السلفیۃ‘‘ سے مقابلہ و موازنہ کی نوبت آتی تو ان حواشی کی کمزوری صاف صاف نظر آتی۔ اس کے علاوہ ’’التعلیقات‘‘ کے فاضل مصنف نے جس سلیقے سے اختصار کے ساتھ جامعیت کا لحاظ رکھا، اس پر حیرت بھی ہوتی کہ متن کا مسئلہ ہو یا سند کا، لغات الحدیث کا مسئلہ ہو یا مشکل الحدیث کا، تجدد پسندوں کے اشکالات ہوں یا منکرینِ حدیث کی سخن سازیاں۔ غرض یہ کہ ’’التعلیقات‘‘ کی حد بندی کے باوجود سنن نسائی سے متعلقہ کوئی ایسا مبحث نہیں، جس کا حل موجود نہ تھا۔ ’’التعلیقات‘‘ کی انہی خوبیوں نے غائبانہ طور پر حضرت مولانا کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ آیندہ سال درجہ خامسہ میں جب دیگر اسباق کے ساتھ جامع ترمذی پڑھی تو حسبِ استطاعت تحفۃ الاحوذی کو بھی پیشِ نگاہ رکھتا۔ ’’باب ما جاء في التغلیس في الفجر‘‘ کے تحت غلس و اسفار کے مسئلے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت محدث مبارکپوری نے حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت پر بحث کی ہے اور اس کے ایک راوی اسامہ بن زید اللیثی کے بارے میں جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’أسامۃ بن زید اللیثي وإن تکلم فیہ لکن الحق أنہ ثقۃ للاحتجاج قال إمام ھذا الشان یحيٰ بن معین ثقۃ حجّۃ وقال ابن عدي لا بأس بہ کذا في المیزان ولذلک ذکرہ الحافظ الذھبي في کتابہ
Flag Counter