Maktaba Wahhabi

221 - 391
من دلق خود بافسرِ شاہاں نمی دہم من فقر خود بملک سلیماں نمی دہم از رنج فقر در دل گنجے کے یافتم ایں رنج را براحت شاہاں نمی دہم ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا مشرقی حصہ اندرونی و بیرونی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مغربی پاکستان میں بھٹو ’’أنا ولا غیري‘‘ کا ڈنکا بجا رہے تھے اور اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور فکس اپ کر دینے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔ ادھر مہنگائی کے عفریت نے بھی ہر شریف اور غریب شہری کو پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا، نہ کسی کی عزت محفوظ تھی، نہ جان و مال۔ اسی سراسیمگی میں راقم لاہور حضرت والا رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اسی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے عرض کی کہ حضرت اب کیا ہو گا؟ اس کے جواب میں جو فرمایا، الفاظ تو محفوظ نہیں، مفہوم یقینا یہ تھا: ’’اتنی فکر نہ کرو ہم اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اسی معاشرے کے ایک فرد ہیں۔ دوسروں کے ساتھ جو ہو گا، اگر وہی ہمارے ساتھ ہونا مقدر ہے تو اُسے کون ٹال سکتا ہے۔ بس اپنے کام میں لگے رہو اور اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت اور نیک اعمال کی توفیق مانگتے رہو۔‘‘ یقین جانیے، ان کی اس تلقین سے طبیعت کی بے قراری کو الحمد للہ قرار آ گیا اور جو خوف و خطر اور خدشات دل میں لیے حاضر ہوا تھا، بس انہی ایک دو جملوں سے کافور ہو گئے۔ غور فرمائیے ’’عافیت‘‘ اور ’’توفیق‘‘ کی جامعیت پر۔ دنیا و آخرت کی کلفتوں میں سے کون سی مصیبت ہے جو ’’عافیت‘‘ سے خارج ہے اور وہ کون سا عمل ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ’’توفیق‘‘ کے بغیر پورا ہو سکتا ہے، بلکہ آپ عموماً فرمایا
Flag Counter