Maktaba Wahhabi

241 - 391
رجال ہی کے بارے میں ان کی ایک اور تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ منکرینِ حدیث کے ایک سرغنہ تمنا عمادی صاحب نے اگست ۱۹۵۵ء کے ’’طلوعِ اسلام‘‘ جس میں بقول حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ نہ طلوع ہے نہ اسلام۔ میں مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ جس میں انھوں نے مسند امام احمد رحمہ اللہ کے پایۂ استناد پر انتہائی رکیک حملے کیے اور اس کی عظمت کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ ان کے اعتراضات میں سے ایک اعتراض جسے انھوں نے بڑی اہمیت سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ یہ تھا کہ ابو بکر القطیعی جو امام عبداللہ بن امام احمد رحمہم اللہ سے مسند امام احمد کے راوی ہیں، نے جو کچھ روایت کیا ہے وہ حقیقتاً امام عبداللہ کے شاگرد ابو بکر الشافعی کے واسطہ سے ہے اور ابو بکر الشافعی شیعہ ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’ان (ابو بکر قطیعی) کو جو کچھ ملا ابو بکر الشافعی ہی سے ملا مگر درمیان سے ابو بکر الشافعی کا نام اڑا کر اپنی نسبت کو بلاواسطہ ابو بکر الشافعی کے شیوخ سے جوڑ دیا کرتے تھے۔‘‘ حضرت مولانا مرحوم نے جہاں تمنا صاحب کے باقی اعتراضات کا جواب دیا وہاں اس اعتراض کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے: 1. تذکرہ و رجال کی کتابوں میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ ابو بکر الشافعی اور امام عبداللہ کے مابین باہم تلمذ کا کوئی رشتہ تھا۔ 2. ابو بکر دو ہیں ایک الشافعی جو مشہور حافظ الحدیث ہیں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ ان کا ذکر ’’الإمام الحجۃ المفید محدث العراق‘‘ کے بلند القاب سے کرتے ہیں۔ جنھوں نے رافضیوں کے علی الرغم جامع بغداد میں اپنے ہاتھ سے فضائلِ صحابہ لکھے تھے اور دوسرا ابو بکر شیعہ ہے۔
Flag Counter