Maktaba Wahhabi

271 - 391
ذکر کیا کہ اب بھی مقلدین حضرات بڑی جرأت سے لکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم مقلدین کے لیے قرآن و حدیث کے حوالوں کی ضرورت نہیں۔ اس ناکارہ نے جرأت کر کے پوچھ لیا کہ یہ کس نے لکھا ہے؟ تو اس صاحب نے بتلایا کہ اسی سال ۱۹۶۸ء کے جنوری و فروری میں شائع ہونے والے ماہنامہ تجلی دیوبند میں ہے۔ حضرت الشیخ سے ملاقات کے بعد وہ تو تشریف لے گئے، مجھے تجسس ہوا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ علامہ احسان الٰہی ظہیر ہیں۔ یہ تھی میری پہلی ملاقات۔ راقم چونکہ نیا نیا تقلید کے بندھن سے آزاد ہوا تھا، اس لیے مجھے ماہنامہ تجلی دیوبند کی جستجو ہوئی کہ خود دیکھا جائے، اس میں کیا لکھا ہے؟ چنانچہ ایک روز میں (لائل پور) فیصل آباد آیا، یہاں کچہری بازار میں گول سے کچھ آگے باہر کو جائیں تو بائیں ہاتھ شیخ اسحاق صاحب ہوتے تھے، ایک دکان کے آگے انھوں نے ایک الماری رکھی ہوتی تھی اور وہ ہفت روزے اور ماہنامے رسائل فروخت کرتے تھے اور کچھ رسائل ہندوستان سے بھی منگواتے تھے۔ مدرسہ اشاعت العلوم کچہری بازار کے شیخ الحدیث حضرت مفتی سید سیاح الدین کاکا خیل مرحوم سے کئی بار یہاں عصر کی نماز کے بعد ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ وہ وہاں رسائل و اخبارات پڑھنے کے لیے عصر کے بعد تشریف لے جایا کرتے تھے۔ قصہ مختصر کہ میں نے شیخ اسحاق صاحب سے تجلی کے مطلوبہ شمارے کی بات کی تو انھوں نے اسے مہیا کرنے کا وعدہ کر لیا۔ بالآخر انھوں نے وعدہ وفا کیا اور وہ شمارہ منگوا دیا۔ آئیے دیکھتے ہیں، اس میں کیا لکھا ہے! چنانچہ ’’تجلی کی ڈاک‘‘ کے عنوان کے تحت سوال نمبر ۱۱ اور اس کا جواب مولانا عامر عثمانی کے قلم سے حسبِ ذیل ہے: ’’سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین یہاں پر ماہِ رمضان شریف میں
Flag Counter