Maktaba Wahhabi

313 - 391
ہوا۔ بالآخر سات دن بعد ۳۰ مارچ کو اسی کے نتیجے میں ریاض سعودیہ عربیہ میں انھوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ جس میں میری محرومیاں دو چند ہو گئیں اپنے آپ کو کوستا تھا کہ کاش ختمِ نبوت کانفرنس میں ان سے مل لیتا باتیں کرتا اور جی بھر کر انھیں دیکھ لیتا، مگر اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت! علامہ صاحب کے بچھڑنے پر پوری محفل ہی نہیں، بلکہ عالمِ اسلام سُونا ہو گیا۔ حیف درچشم زدن صحبت یار آخرشد روئے گل سیر نہ دیدم کہ بہار آخرشد اب آخر میں ایک خواب کی داستان بھی پڑھ لیجیے۔ ہمارے شہر فیصل آباد میں حضرت مولانا حافظ محمد یوسف صاحب چونیاں والے، ایک نیک سیرت، عابد و زاہد شب زندہ دار بزرگ تھے۔ حضرت علامہ صاحب کے سانحہ شہادت کے کچھ عرصہ بعد ایک روز ظہر کی نماز منٹگمری بازار مسجد میں پڑھنے کے لیے تشریف لائے۔ یہ ناکارہ نماز سے فارغ ہو کے جائے نماز پربیٹھا تھا کہ محترم حافظ صاحب آگے بڑھ کے میرے پاس تشریف لے آئے، ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے اور مجھے مخاطب ہو کے فرمانے لگے: مولوی صاحب! میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور میں اس کے بارے میں بے حد پریشان ہوں۔ عرض کی: کیا خواب ہے؟ فرمانے لگے: میں نے خواب میں دیکھا کہ علامہ صاحب رحمہ اللہ ٹیلے پر برہنہ کھڑے ہیں۔ میں نے عرض کی حافظ صاحب یہ تو بہت اچھا خواب ہے۔ فرمانے لگے: اچھا، وہ کیسے! اس کی تعبیر کیا ہے؟ عرض کی ایک تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے گناہوں اور لغزشوں سے انھیں پاک صاف کر دیا ہے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ علامہ صاحب کو شہرت کی معراج عطا فرمائے گا۔ وہ میری یہ بات سن کے مطمئن ہوئے۔ واقعی اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہادت کے بعد جو مقبولیت عطا
Flag Counter