Maktaba Wahhabi

338 - 391
بنا پر وہ ہمیشہ اپنی جیب میں آٹھ آنے اور ایک روپے یا چار آنے کی کرنسی رکھتے تھے، جن کرنسی کے نوٹوں پر تصویر ہوتی اسے جیب کی کبھی زینت نہ بنایا۔ فرماتے تھے کہ حجِ بیت اللہ کا بڑا اشتیاق ہے مگر اس کے لیے تصویر لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ حرمت کا ارتکاب کر کے جانے میں کیا خیر و بھلائی ہو گی۔ مولانا سراج الدین ۱۹۷۶ء میں فوت ہوئے، ان کی وفات پر بابائے تبلیغ مولانا عبداللہ صاحب گورداس پوری نے ان کی یاد میں ایک مضمون لکھا جو ’’الاسلام‘‘ ۲۵ جون ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا جس میں انھوں نے ۱۹۴۸ء میں رائیونڈ کی جامع مسجد اہلِ حدیث میں منعقد ہونے والے ایک تبلیغی جلسے کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سراج الدین کے خطاب کے حوالے سے لکھتے ہیں: بعد از دوپہر دوسرے اجلاس میں حضرت مولانا حافظ ابو سعید محمد سلیمان صاحب خطیب جامع مسجد بھویہ آصل اور مبلغِ اسلام واعظِ شیریں بیان حضرت مولانا سراج الدین صاحب مبلغ لاہور نے تقریریں فرمائیں، بالخصوص حضرت مولانا سراج الدین کی پنجابی زبان میں میٹھی اور اشعار سے مزین تقریر کا اس قدر اثر تھا کہ لوگوں پر رقت طاری تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا سراج الدین ’’مبلغ لاہور‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ حضرت مولانا عبداللہ صاحب محدث فیصل آباد نے اپنے تعزیتی کلمات میں بھی ان کی دعوتی و تبلیغی خدمات کا ذکر فرمایا ہے، جیسا کہ آیندہ آپ ان شاء اللہ پڑھیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے اور اپنے اسلاف کے ساتھ جنت الفردوس نصیب فرمائے۔ آمین مولانا سراج الدین مرحوم کے چار بیٹے تھے: 1. مولانا محمد رفیق، 2. مولانا محمد ابراہیم بھیڈیاں والے، 3. محمد بشیر، 4. عبداللہ۔ چاروں یکے بعد دیگرے اس
Flag Counter