Maktaba Wahhabi

106 - 268
جری اور بہادر صحابی فرماتے ہیں کہ مجھے خیبر کے دن کے علاوہ زندگی بھر کبھی امارت کی آرزو پیدا نہیں ہوئی۔ دوسرے دن جب جھنڈا سپرد کرنے کاوقت آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب اس شخص پر پڑی جو حاضرین میں موجود بھی نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ص کا انتخاب فرمایا اور پوچھا وہ کہاں ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کی آنکھیں دکھنے میں آئیں ہیں۔ اور وہ یہاں موجود نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں طلب فرمایا۔ آنکھوں پر لب مبارک لگایا تو آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا ان کے حوالہ کردیا۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں بہادری کے تمام اوصاف موجود تھے جوایسے موقع پر درکار تھے۔ اور واقعات نے یہ فیصلہ کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب بالکل درست تھا۔ (۵) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی خوب جانتے تھے کہ کون لوگ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اپنی وفات سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی سرحدوں پر شورش کو دفع کرنے کے لیے جو لشکر ترتیب دیا۔ اس کا سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے،کو مقرر کیا۔ جبکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے بہادر اور قائدانہ صلاحیتیوں کے مالک صحابہ موجود تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت بعض لوگوں کو ناگوار بھی محسوس ہوئی کہ اتنے اتنے بڑے معزز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایک غلام زادے کی ماتحتی میں جہاد پر روانہ ہوں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حضرت اسامہ بن زید میں مطلوبہ قائدانہ صلاحیت اور بہادری موجود ہے۔ حضرت اسامہ ص کے تقرر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف یہ تھا۔ کہ نسلی تفوق کے بت کو ساتھ ہی پاش پاش کردیاجائے۔ چنانچہ اس تقرر سے یہ دونوں مقصد حاصل ہوگئے۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پنتھ سے دوکاج کاکام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتوحات کی وجوہ میں جوہر شناسی کو بہت بڑا دخل ہے۔ تھوڑی سی فوج سے زیادہ سے زیادہ کام لے کر اپنے مقصد کو حاصل کرلینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر ہمیں تاریخ میں نہیں ملتی۔ (۴)باہمی مشاورت مشورہ امیر کی خود سری اور پندار نفس کا موثر علاج ہے جو اسے آمرانہ حیثیت سے نیچے
Flag Counter