حفاظت کرنا اور ان میں پناہ پکڑنا، لڑائی سے پیشتر سامانِ جنگ تیار رکھنا ، دشمن کے نقل وحرکت سے باخبر رہنا اس کا مداوا سوچنا ، دشمن کی بے خبری میں حملہ کے لیے تیار رہنا سب کچھ خُذُوْا حِذْرَکُمْ کے مفہوم میں سما جاتا ہے:۔ دورِ نبوی میں اسلحہ جنگ ہر سپاہی کی انفرادی ملکیت ہوتا تھا۔ لیکن آج اسلحہ جنگ مہیا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ لہذا اسلحہ جنگ تیار کرنے والے کارخانوں‘ سٹوروں کا تحفظ اور بچا ؤ بھی خُذُوْا حِذْرَکُمْ میں آتا ہے۔ غرض قوم وملک کا تحفظ افرادِ فوج کے تحفظ کی تدابیر، آلات جنگ کا تحفظ، لڑائی کے منصوبوںکو راز میں رکھنا۔ سب کچھ اس حکم میں داخل ہے۔ آج دشمن سب سے پہلے اسلحہ کے محفوظ ذخائر کو اچانک حملے کے ذریعہ تباہ کردیتا ہے۔ ان سب امور کی طرف اس آیت میں مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے۔ (۹) میدان جنگ سے فرار گناہ عظیم ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ.وَمَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْ مَئِذٍ دُبُرَهُ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیّزًا اِلیٰ فِئَةٍ فقد بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنْ اللّٰهِ وَمَاْوٰه جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾(۸:۱۵،۱۶) (اے ایمان والو! جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔ اور جو شخص جنگ کے روز، سوائے اس کے کہ پینترا بدل کر لڑنا چاہتا ہو یا اپنی فوج سے جاملنا چاہتا ہو، دشمن سے پیٹھ پھیرے گا تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہوگیا۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔) وجہ یہ ہے کہ اسلام میں بھاگنے ، ہتھیار ڈالنے اور شکست کھانے کا کوئی تصور نہیں۔ مسلمان کے لیے بس دو ہی راستے ہیں یا تو فتح یاب ہوکر واپس لوٹے اور غازی کہلائے۔ یا پھر شہید ہوکر شہادت کا بلند مقام حاصل کرے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیهِ اَجْرًا عَظِیْمَا ﴾(۴/۷۴) (اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرے ، پھر مارا جائے یا غالب آجائے۔ تو دونوں صورتوں میں ہم اس کو بہت بڑا اجر دیں گے۔ )) |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |