تلقین فرمائی۔ سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ: ((مَرَّ النَّبی صلی الله علیه وسلم علی نفر من اسلم یَنْتَضِلُّوْنَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلیَّ اللهُ عَلَیْهِ وسلم: اِرْمُوا بنی اسْمٰعِیلَ فَاِنَّ اَبَاکُمْ کَانَ رَامِیاً اِرْ مُوْا وَاَنَا مَعَ بَنِیْ فَلانٍ فَاَمْسَكَ اَحَدُ الْفَرِیْقَیْنِ بِاَیْدِیْهِمْ فَقَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلیَ اللّٰهِ وسلم: مَالَکُمْ لَا تَرْمُونَ‘‘؟ قَالُوْا کَیْفَ نَرْمِیْ وَاَنْتَ مَعَهُمْ‘‘؟ قَالَ النَّبی صَلیَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اِرْمُوْا فَانَا مَعَکُمْ کُلّکُمْ‘‘- )) (بخاری کتاب الجهاد والسیر‘ باب التحریض علی الرمی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلم قبیلے کے کئی لوگوں پر گزرے جو (دو گروہ ہو کر) تیر مار رہے تھے۔ (تیر کی مشق کر رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے بنی اسمعیل! تیر اندازی کی مشق کیا کرو کیونکہ تمہارے بآپ صلی اللہ علیہ وسلم سمعیل تیر انداز تھے۔ اور میں اس گروہ کی طرف ہوتا ہوں یہ سن کر دوسرے گروہ نے کھیل ختم کر دیا۔ آپ نے توانہیں کہا۔ تیر کیوں نہیں چلاتے - وہ کہنے لگاکیسے چلائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے فریق کے ساتھ ہو گئے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’اچھا میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ تیر چلا ؤ (مشق جاری رکھو) جنگی فنون سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلچسپی کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے بھی بخوبی ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ((بَیْنَا الْجَشَةَ یَلْعَبُوْنَ عِنْدَ النَّبِی صَلیَ اللّٰهُ وَسَلَّمْ بِحَرَابِهِمْ دَخَلَ عمر فاهوی الی الحصی فحصبهم بها فقال: ’’دعه ُمْ یَا عُمر!‘‘ وزادَ عَلَیّ حَدَّثَنَا عبدالرزاقِ اخبرنا مَعَمَرٌفِی المسجد-) (بخاری کتاب ایضاً باب اللهو بالحراب و’ نحوها) (ایک بار ایسا ہوا کہ حبشی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور یہ دیکھ کر کنکریوں کی طرف جھکے اور ان پر کنکر مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’عمر رضی اللہ عنہ ان کو کھیلنے دے‘‘۔ علی نے عبدالرزاق سے انہوں نے معمر سے اتنا زیادہ کیا کہ ’’یہ کھیل مسجد میں ہو رہا تھا‘‘۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کے احترام کی وجہ سے حبشیوں کو روکنا چاہا تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو روک کر یہ واضح کر دیا کہ حربی فنون کی مشقیں مسجد میں بھی کی جا سکتی ہیں۔ بالکل اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسے مروی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |