﴿ وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ۔ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ ﴾ (۸: ۶۱، ۶۲) (اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم لوگ بھی اس کی طرف مائل ہوجا ؤ اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو بلا شبہ اللہ تعالیٰ سننے جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ یہ چاہیں کہ تمہیں فریب دیں تو اللہ تمہیں کفایت کریگا۔ ) یہ آیات اس بات کی واضح شہادت ہیں کہ اسلام دنیا میں تخریب کاری کے لیے نہیں بلکہ اسے مٹانے آیا ہے۔ پھر اگر کسی قوم سے بدعہدی اور خیانت کا خطرہ پیدا ہوجائے۔ تو کھلے بندوں معاہدہ کو منسوخ قرار دے دینا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۗىِٕنِيْنَ 58ۧ ﴾ (۸:۵۸) (پھر اگر تمہیں کسی قوم سے دغابازی کا خطرہ ہو تو معاہدہ برابری کی بنیاد پر فسخ کردو۔ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ دغا بازوں کو پسند نہیں کرتا۔) اس معاہدہ کی تنسیخ کے بعد ہی ان سے جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ پہلے نہیں۔ (۵)سیاسی پناہ یا امان: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ﴾ (۹:۶) (اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا طلب گار ہو تو اس کو پناہ دو۔ حتّٰی تک کہ اللہ کا کلام (اچھی طرح) سن لے۔ پھر (بھی اسلام نہ لائے تو )اسے امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔) یہ پناہ خواہ میدان جنگ میں دی گئی ہو یا پہلے سے۔ دونوں صورتوں میں اس پناہ کا احترام لازم ہے پناہ کا جائز اختیار خواہ وہ کسی فرد کو دی جائے یا کسی قوم کو امیر یا سپہ سالار کو ہی ہوتا ہے۔ تاہم ایک عام مسلمان ، حتّٰی کہ غلام یا عورت بھی اگر پناہ دے دے تو وہ موثر ہوتی ہے۔ [1] اور اسکونبھانا مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ امان دراصل عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ عہد وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ امان صرف جان ومال وآبروکی حفاظت کا عہد |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |