اور صفوان بن اسید جو کہ ان کا رئیس اعظم تھا اور ابھی تک اسلام نہیں لایا تھا۔ اس سے اسلحہ جنگ مستعار لیا۔ اس نے سوزر ہیں اور اس کے لوازمات پیش کیے[1]۔ (۵) یہود سے جو غزوات ہوئے۔ مثلاً غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ سب یہودیوں کی عہد شکنی اور کھلی بغاوت کے نتیجہ میں پیش آئے تھے۔ غور فرما لیجئے کہ ان میں کون سی جنگ کو جارحانہ جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دارالاسلام اور دارالحرب: دارالاسلام اور دارالحرب کی اصطلاحیں فی الواقع فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں۔ لیکن انہیں عالم اسلام اور عالم جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی مغالطے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں: (۱) اسلام غیر مسلموں کے سارے علاقے کو ’’عالم جنگ‘‘ قرار نہیں دیتا۔ ہم چوتھے باب میں واضح کر آئے ہیں کہ غیر جانبدار ممالک سے جنگ کی اجازت نہیں۔ یعنی ایک ایسی مسلم حکومت جو امن و امان سے رہتی اور رہنا پسند کرتی ہے۔ اس سے لڑائی کا کوئی جواز نہیں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی۔ ارشاد باری ہے : ﴿ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ď ﴾ (۶۰: ۸) (اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا ۔ جو تم سے دین کے سلسلہ میں نہیں لڑتے۔ اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ) اس آیت میں غیر جانبدار ممالک سے لڑائی سے منع ہی نہیں کیا گیا بلکہ بہتر سلوک کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا’’دارالحرب‘‘ دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے۔ دوسرے حربی علاقہ جہاں جنگ کا امکان ہے۔ (۲) حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہوسکتے ہیں جن سے صلح وتجارت وغیرہ کے معاہدات |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |