سال کے دوران اونچی ذات والے ہند ؤ ں نے نیچی ذات والے ہند ؤ ں (ہریجنوں) پر نجی طور پر جو حملے کیے اس میں ۱۸۵۲ء ہریجن قتل ہوئے۔ اور ۱۹۴۱ کو اغوا کیا گیا۔[1] (ب) عصر حاضر کی مہذب اقوام کی جنگیں یوں تو ایسی جنگیں بہت ہیں۔ ہم یہاں صرف جنگ عظیم اول اور دوم کا ذکر کریں گے۔ کیونکہ ان جنگوں میں حصہ لینے والے سب کے سب انسانیت کے علمبردار تھے جو آپس میں بے دریغ کشت وخون بہا کر انسانیت اور امن وآشتی کا علم بلند کر رہے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ابتدائً ۶ ممالک نے حصہ لیا، جنگ کے اختتام تک یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ۱۴ تک پہنچ گئی تھی۔ جرمنی اور آسٹریا ایک طرف تھے۔ دوسری طرف حق پرست اتحادی تھے یعنی برطانیہ، اٹلی ، فرانس اور روس۔ اتحادی اس جنگ کا یہ مقصد بتاتے تھے کہ چھوٹی سلطنتوں کی آزادی اور حفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ جنگ لڑی جارہی ہے اس چھوٹے سے مقصد کے حصول کے لیے جس قدر قتل وغارت ہوئی اس کا نقشہ ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔ اس نقشہ کو پیش کرنے سے مقصد صرف یہی نہیں کہ ہلاک شدہ نفوس کی تعداد کا صحیح پتہ چل جائے۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ آئندہ ابواب میں جنگوں کے مقاصد یورپی اقوام کے خفیہ معاہدات اور اندرونی جھگڑے ، عربوں سے غداری اور عہد شکنی کے بیشمار واقعات کے حوالہ جات آئیں گے۔ یہ نقشہ آپ کو ابتدائی معلومات مہیا کرے گا۔ سردست اتنا ہی سمجھ لیجئے کہ حق پرست اتحادیوں نے ظاہری اتحاد کے پردے میں خفیہ معاہدات کے ذریعہ اس ’’غرض وغایت‘‘ کی اس قدر مٹی پلید کی کہ چھوٹی سلطنتوں کا کچومر نکل گیا۔ اس جنگ میں مقتولین کی تعداد ایک محتاط اندازہ کے مطابق پچاسی لاکھ اٹھائیس ہزار کے لگ بھگ مجروحین‘ قیدی اور لاپتہ لوگوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مصارف جنگ اربوں ڈالر تک جا پہنچے اور اس کا نتیجہ کیا نکلا! صرف یہ کہ بڑی طاقتوں نے بندر بانٹ کے ذریعہ چھوٹی سلطنتوں کی آزادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں (۱۹۳۹۔۴۵) میں ۲۸ ممالک شریک ہوئے۔ مقتولین کی تعداد |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |