ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اسلام میں کشور کشائی مقصود بالذات نہیں۔ مقصود بالذات نظام عدل کا قیام ہے۔ یہ نظام عدل بعض دفعہ کشور کشائی کے بغیر بھی میسر آجاتا ہے۔ اور کشور کشائی کے بعد بھی یہ قائم نہ ہو۔ تو اسلامی نکتہ نظر سے ایسی فتح کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ہم ذرا غور سے دیکھیںتو معلوم ہوتا ہے۔ جہاد اور عام جنگیں، اپنے مزاج ، مقاصد، طریق کار، انجام کار اور نتائج غرض ہر بات میں ایک دوسر سے مختلف اور مبائن ہیں جس کی وضاحت اس کتاب میں جا بجا مناسب مقامات پر پیش کی جا چکی ہے۔ ذیل میں ہم انہیں یک جا طور پر پیش کرتے ہیں۔ (۱) مقاصد کا فرق: دنیا میں ہمیشہ یہی چلا آیا ہے کہ بھائی بھائیوں کی مدد میں لڑے ہیں۔ قبیلے قبیلوں کی حمایت، خاندان خاندانوں کی حفاظت کیلئے حتٰی کہ اہل ملک، ملک کی حمایت و حفاظت میں جانیں دیتے رہے ہیں۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی قوم یا ملک کے ذاتی مفادات یا سیاسی مفادات کو دنیا میں پیدا شدہ کسی بھی واقعہ سے آنچ آنے لگی۔ تو وہ لڑائی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کو یا اپنے ملک کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے مفادات کو آنچ نہ بھی آئے تو بھی وہ چاہتا ہے کہ اس کی قوم دوسروں کو مفتوح بنا کر سر بلند ہو اور دنیا میں اپنا نام پیدا کرے ۔ دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی کوئی جنگ ہوئی، انہیں میں سے کسی ایک مقصد کے تحت ہوئی ہے۔ لیکن اسلام ان تینوں مقاصد میں سے کسی کو بھی درست تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ وہ جنگ کا مقصد صرف یہ قرار دیتا ہے کہ دنیا سے فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو اور اللہ کا بول بالا ہو۔ فتنہ و فساد کا خاتمہ اگر جنگ کیے بغیر ہو سکتا ہے تو جنگ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب دیکھئے کہ قرآن کریم نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہاں سرے سے کوئی جنگ ہوئی ہی نہیں۔ جنگ نہیں ہوئی تو پھر فتح کیسی اور فتح مبین کیسی؟ یہ صلح اس لحاظ سے فتح مبین قرار دی گئی کہ فتنہ و فساد کو ختم اور نیست و نابود کرنے کے لحاظ سے جتنے شاندار نتائج اس صلح سے ہوئے۔ اگر جنگ برپا ہوجاتی اور اس میں مسلمانوں کو فتح بھی حاصل ہو جاتی تو اس کے ایسے شاندار نتائج متوقع نہ تھے۔ پھر جس طرح بدن کے کسی پھوڑے کے زہر سے باقی بدن کو بچانے کے لیے اس کا اپریشن ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے فتنہ پرداز عناصر کے زہر سے باقی معاشرہ کو بچانے کے لیے اور اس فسادی گروہ کا قلع قمع کرنے کے لیے جنگ کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |