Maktaba Wahhabi

107 - 268
اتار کر مشورہ دہندگان کی سطح پر لاکھڑا کرتا ہے۔ دوسری طرف مشورہ دہندوں میں خود اعتمادی اور عزت نفس بحال کرکے انہیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ سلطنت کے کاروبار میں برابر شریک سمجھے جا سکیں۔ بالفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے کہ مشورہ حقیقی جمہوریت کی روح رواں ہے یہی وجہ ہے کہ آمر قسم کے لوگ مشورہ میں اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ وہ محض حکم چلانے میں ہی اپنی شان سمجھتے ہیں اور بسا اوقات ایسی خطرناک غلطیاں کربیٹھتے ہیں جو بالآخر ان کی دوسری خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ ہر قسم کے سربراہ اور اسی طرح ایک جرنیل کی عظمت کا راز اس بات میں ہے کہ وہ تمام اہم امور میں اپنے ساتھیوں سے بھی مشورہ لیتا رہے۔ اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں:۔ ﴿ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ﴾ (۳:۱۵۹) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کیجئے۔ پھر جب کسی کام کا عزم کرلیں تو اللہ تعالیٰ پر توکل کیجئے۔) مشورہ کے فائدے: مشورہ سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں: (۱) اس سے رائے عامہ اپنی اجتماعی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ آزادی سے اپنی رائے کے اظہار کا موقع میسر آتا ہے۔ (۲) شورٰی کے فیصلے سے رائے عامہ مطمئن ہوجاتی ہے۔ مشیر اور عوام اسے اپنا ذاتی فیصلہ سمجھ کر اسے بروئے کارلانے میں مستعد ہوجاتے ہیں۔ (۳) معاملہ کے سب پہلو سامنے آجاتے ہیں اور درست نتائج تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ واضح رہے کہ دور نبوی اور خلافت راشدہ میں شورٰی کے فیصلے امت کے لیے واجب التعمیل اور قانون کا ماخذ قرار پاگئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکومت کے ہر اہم معاملہ میں شورٰی طلب فرماتے تھے۔ یہ معاملہ خواہ دین کی مصلحتوں سے متعلق ہوتا یا دنیوی مفاد سے، اجتماعی ہوتا یا شخصی قسم کا۔ صحابہ کرام آپ کو مشورہ کے لیے بے چین پاتے تھے۔واقعہ افک جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور رائے طلب فرمائی۔
Flag Counter