ا سے ایک صحابی ص نے پوچھی تھی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے: ((جَاءَ رَجُل اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ، وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ یُرٰی مَکَانَه فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا فَهُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ)) (بخاری کتاب الجهاد والسیر- باب من قاتل لتکون کلمة الله هی العلیا) (ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ: کوئی لوٹ کے لئے لڑتا ہے، کوئی ناموری کے لئے اور کوئی اپنی بہادری جتلانے کو لڑتا ہے۔ تو ان میں کون اللہ کی راہ میں لڑتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اس نیت سے لڑے کہ اس سے اللہ کا بول بالا ہو وہ اللہ کی راہ میں لڑتا ہے۔) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ عوام الناس میں لڑائی میں شرکت کے لئے مندرجہ ذیل تین قسم کے محرکات ہوتے ہیں: (۱) بعض لوگ اس لئے لڑتے ہیں کہ لوٹ مار سے مال ہاتھ آئے گا۔ اموال غنیمت یا دوسرے دنیوی مفادات حاصل ہوں گے۔ (۲) کچھ اس وجہ سے لڑتے ہیں۔ کہ ان کا نام تاریخ میں ثبت ہو گا۔ (۳) اور کچھ اس لئے کہ لوگ ان کے بہادری کے کارنامے فخریہ طور پر بیان کیا کریں گے۔ مندرجہ بالا حدیث کے راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہی سے ایک دوسری روایت یوں ہے: ((جَاءَ رَجُلُ اِلیَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ! یَارَسُوْلَ اللّٰهِ! مَاالْقِتَالُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ؟ وَ اِنَّ اَحَدَنَا یُقَاتِلُ غَضَبًا وَ یُقَاتِلُ حَمِیَّةً فَرَفَعَ اِلَیْهِ رَأسُه فَقَالَ: ’’مَنْ قَتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قتال فی سبیل اللہ کیا ہے؟ ہم میں سے کوئی شخص جوش غضب میں لڑتا ہے اور کوئی حمیت قومی کی بنا پر‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا۔ ‘‘ فَهُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ)) (مسلم۔ کتاب الجهاد۔ باب من قاتل لتکون کلمة الله هی العلیا) ’’جو شخص اللہ کا بول بالا کرنے کے لئے لڑتا ہے اسی کی جنگ اللہ کی راہ میں ہے‘‘۔ اس حدیث سے لڑائی کے دو اور محرک سامنے آ گئے: |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |