کے وقت مسلمان فوجیوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ اور یہ صرف وہ تعداد تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مکہ آئے تھے جبکہ تمام مسلمانوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی۔ شرط نمبر3کے نتائج: اس شرط کی رُو سے عرب قبائل اس بات میں آزاد تھے کہ وہ فریقین میں سے کسی کے حلیف بن جائیں۔ اس شرط کی رو سے قبیلہ بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بن گئے اور قبیلہ بنو بکر قریش کے ۔ ان دونوں قبائل کی دیرینہ دشمنی چلی آرہی تھی۔ صلح حدیبیہ کے قریباً ڈیڑھ سال بعد بنو بکر نے قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔ تو قریش نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے علانیہ ان کی مدد کی اور بہت سے آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاانہوں نے حرم میں پناہ لی لیکن قریش نے اس کا بھی لحاظ نہ کیا۔ بنو خزاعہ کے چالیس شتر سوار مدینہ میں فریاد لے کر پہنچے۔ تو آپ کو اس بد عہدی کا سخت صدمہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اس عہد شکنی پر جنگ کا فوری اعلان کر سکتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسند طبیعت نے یہ گوارا نہ کیا ۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو تین شرطیں پیش کیں۔ (۱) خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیا جائے۔ (۲) قریش بنو بکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ (۳) اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط پیش کیں تو نوجوان طبقہ بھڑک اُٹھا۔ انہیں میں سے ایک شخص فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کیا کہ ’’صرف آخری شرط منظور ہے‘‘ ۔ قاصد واپس چلا آیا تو قریش کے سنجیدہ طبقہ نے اس اعلان کے نتائج و عواقب پر غور کیا۔ تو جلد ہی ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ چنانچہ ابوسفیان کو مدینہ بھیجا گیا کہامعاہدہ کی تجدید کر آئیں۔ ابو سفیان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گزارش پیش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ثالثی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں نے معذرت کردی۔ اب ابو سفیان ص نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو سفارشی بنانا چاہا اور حضرت حسن کا واسطہ دے کر تجدید عہد کے لیے کہا۔ تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا نے جواب دیا ۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |