اسیران جنگ سے برتا ؤ اسیران جنگ سے سلوک کے متعلق مندرجہ ذیل صورتیں ممکن ہیں۔ (۱) اسیر بنانے سے پہلے ہی آزاد کردیا جائے۔ (۲) بلا معاوضہ ازراہ احسان چھوڑ دیا جائے۔ (۳) معاوضہ (فدیہ) لے کر چھوڑ دیا جائے۔ (۴) جنگی قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کرلیا جائے۔ (۵) غلام بنا لیا جائے۔ (۶) تہ تیغ کردیا جائے۔ اسیرانِ جنگ سے متعلق قرآن کریم نے ایک عام اصول بیان فرمادیا: ﴿ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً ﴾(۴۷:۴) (پھر ان قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو۔ یا فدیہ لے کر۔) اب ہم دیکھیں گے کہ دور نبوی میں کل کتنے اسیر ہوئے اور ان سے کیا سلوک ہوتا رہا۔ (۱) اسیر بنانے سے پہلے آزاد کردینا: یہ صورت صرف فتح مکہ کے بعد اختیار کی گئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں سے عفو ودرگزر سے کام لیا اور فرمایا: «اِذْهَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَاء» (جا ؤ تم سب آزاد ہو۔) اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ ہزار ہا کی تعداد میں تھے جو باوجود قدرت کے غلام بنائے نہیں گئے۔ ان میں سے کچھ تو مسلمان ہوگئے۔ اور کچھ غیر مسلم ہی رہے۔ (۲) ازراہ احسان چھوڑ دیا جائے: اس صورت کے مندرجہ ذیل غزوات و سرایا کے قیدی آزاد کیے گئے: (۱) سریہ نخلہ رجب ۲ھ ۲قیدی (۲) غزوہ بنو مصطلق شعبان ۵ھ ۱۹قیدی[1] |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |