Maktaba Wahhabi

191 - 268
معاہدے کی خود بھی پابندی کریں۔ اور ہماری خیر طلبی پر قائم رہیں۔ تب انہیں مزید کسی قسم کی زیر باری سے دوچار نہ کیا جائے گا اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا ظلم روا رکھا جائے گا[1]۔ دوسری صورت: معرکہ کارزار گرم ہونے کے بعد جب دشمن کو اپنی شکست نظر آنے لگے۔ اور وہ خود صلح کی پیشکش کرے۔ اس صورت میں شرائط فریقین کی باہمی رضامندی سے طے ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بیشتر غزوات یہود میں ہوا۔ اور بالعموم انہی کی پیش کردہ شرائط تسلیم کی جاتی رہیں۔ تیسری صورت: بزور شمشیر فتح ہوجانے کے بعد مفتوح قوم سے معاہدہ۔ اس صورت میں فاتح قوم کے اختیارات بڑھ جاتے ہیں۔ مفتوح قوم کی جائداد منقولہ وغیر منقولہ پر پورا تصرف ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اس ملک کو اپنی تحویل میں لے لے۔ جس طرح آج کل کی حکومتیں بندر بانٹ کرتی ہیں اور چاہے تو زمین سابقہ مالکان کے پاس رہنے دے اور ان سے بٹائی کا حصہ مقررہ شرح سے لگان (خراج) وصول کرے اور زمین سابقہ مالکان کے پاس رہے۔ اور چاہے۔ تو اپنے تمام حقوق سے دستبردار ہوجائے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر کیا تھا۔ یہ زمینوں کا معاملہ تھا۔ کئی سرایا میں اموالِ غنیمت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کردیے تھے اور اسیرانِ جنگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیاضی کا حال پہلے مفصل طور پر لکھا جا چکا ہے۔ جزیہ اور خراج: عرب کی ہمسایہ اور متمدن حکومت ایران میں دو قسم کے ٹیکسوں کا رواج تھا۔ ایک زمین کا لگان جو صرف زمینداروں سے لیا جاتا تھا۔ اور اسے یہ لوگ خراگ کہتے ہیں۔ خراج کا لفظ اسی سے معرب ہے۔ دوسرا ٹیکس جو عام لوگوں سے دفاعی ضروریات کے پیش نظر لیا جاتا تھا۔ جسے یہ لوگ گزیت کہتے تھے۔ جزیہ اسی لفظ سے معرب ہے۔ مسلمانوں نے جب یہ علاقے فتح کیے۔ تو انہوں نے مفتوح قوم پر کوئی نیا بار نہیں ڈالا۔ بلکہ وہی دونوں قسم کے ٹیکس ہی مفتوح قوم پر عائد کیے گئے جو شاہ ایران اپنی رعایا سے وصول
Flag Counter