Maktaba Wahhabi

234 - 268
تمام محرکات اور منکرات کا خاتمہ یا ان میں معتدبہ کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ہیں ایک اسلامی مملکت کی ذمہ داریاں جو اسے مفتوحہ علاقوں میں سر انجام دینا پڑتی ہیں۔ اب بتائیے جو جرنیل فتح کے بعد خود بے گناہ شہریوں کا قتلِ عام کرتا ہو۔ لوٹ مار سے یا دوسرے طریقوں سے مفتوحہ علاقہ کی معیشت کو مفلوج کردیتا ہو۔ فتح کے بعدفوجیوں کو مفتوحہ علاقوں کی عورتوں کی عصمت دری کی عام اجازت دیتا ہو، اور خود ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہو۔ وہ مفتوحہ علاقہ کی فلاح و بہبود کا خیال تک بھی دل میں لاسکتا ہے۔؟ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جنگ قادسیہ کی فتح کی خوشخبری ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پُر اثر تقریر فرمائی۔ جس کا آخری حصہ یہ تھا: ’’مسلمانوں ! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تمہیں غلام بنا ؤ ں ۔ میں تو خود اللہ کا غلام ہوں۔ البتہ خلافت کابار میرے سر پر رکھا گیا ہے۔ اگر میں اس طرح کام کروں کہ تم چین سے سو ؤ تو یہ میری سعادت ہے۔ اور اگر میری یہ خواہش ہو کہ تم میرے دروازے پر حاضری دو تو یہ میری بدبختی ہے۔ میں تم کو تعلیم دینا چاہتا ہوں۔ لیکن باتوں سے نہیں بلکہ عمل سی[1]۔ اس اقتباس سے یہ واضح ہو جاتا ہے۔ کہ مفتوحہ علاقوں میں اسلام کس قسم کا نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کی تعلیم کیا ہے۔؟ سکندر اپنے دَور کی مہذب ترین قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے مفتوحہ علاقوں میں فلاح و بہبود کا کونسا کام کیا تھا ؟ چنگیز کو عظیم جرنیل کے بجائے عظیم ڈاکو اور لٹیرا کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ یہ لوگ جرنیل ضرور تھے مگر انتظامی صلاحیتوں سے عاری تھے، البتہ نپولین میں انتظامی صلاحیتیں موجود تھیں۔ اس نے اندرون ملک کچھ اصلاحات بھی کیں مگر مفتوحہ علاقوں میں اس کی باری ہی نہیں آئی۔ جتنے علاقے اس نے فتح کیے یا زیر اثر بنائے، اس کی ناقص جنگی پالیسی اور سیاسی تدبر کے فقدان کی وجہ سے اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ اس کی آخری زندگی انتہائی ناکامیوں اورمایوسیوں میں گزری۔ بالآخر گرفتار ہوا اور چھ سال بعد مرگیا۔ مندرجہ بالا تصریحات سے واضح ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں قیامِ امن، انتظام و انصرام اور بدی کے استیصال کے پہلو سے اگر تمام دنیا کے جرنیلوں کو دیکھا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہمیں سب سے بلند نظر آتی ہے۔
Flag Counter