Maktaba Wahhabi

188 - 268
اس ارادہ سے مکان پر چڑھایا کہ اوپر سے پتھر پھینک کر آپ کو ہلاک کردے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس صورت حال کی اطلاع ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورًاساتھیوں سمیت واپس مدینہ چلے آئے۔ یہود کو اپنی اس سازش کی ناکامی کا دکھ ہوا۔ اب انہوں نے بغاوت کی تیاری کرکے دوسری سازش یہ کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۳۰ آدمی ساتھ لے کر ہمارے پاس آئیں ۔ اگر ہمارے علمائے یہود نے تصدیق کردی تو ہم بھی اسلام لے آئیں گے۔ حضورا کو دال میں کالا معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ ’’جب تک ایک معاہدہ نہ لکھ دو میں اعتبار نہیں کروں گا‘‘۔ لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ اب بگڑے ہوئے حالات سامنے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے بنو قریظہ سے تجدید معاہدہ کے لیے کہا وہ مان گئے۔ پھر بنو نضیر سے کہا لیکن وہ پھر بھی نہ مانے البتہ اپنا مطالبہ جاری رکھا اور وہی پیغام دوبارہ بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کا اسلام لانا ، بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیار ہو بھی گئے۔ لیکن راستہ میں یقینی خبر مل گئی کہ یہود تلواریں سونت کر تیار بیٹھے ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے۔ انہی دنوں بنو نضیر اور عبداللہ بن ابی منافقین نے ’’اتحاد کرلیا‘‘ اور آپس میں ایک دوسرے کی امداد کے معاہدے طے پاگئے۔ لہذا اب جنگ ناگزیر ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول ۴ھ میں بنو نضیر کا محاصرہ کرلیا جو پندرہ دن تک جاری رہا۔ بالآخر بنو نضیر اس شرط پر راضی ہوئے کہ ہتھیاروں کے علاوہ جس قدر مال اسباب اونٹوں پر لاد کرلے جاسکیں، لے جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط مان لی۔ ان میں سے بڑ ے بڑے ر ؤ ساء نے تو خیبر کا رُخ کیا اور باقی شام کی طرف چلے گئے۔ بنو نضیر اتنے حریص واقع ہوئے تھے کہ اپنے مکانات اپنے ہاتھوں منہدم کرکے ان کے شہیتر اور کڑیاں تک اونٹوں پر لاد کر لے گئے اس غزوہ میں بھی فیصلہ بنو نضیر کی اپنی پیش کی ہوئی شرط کے مطابق ہوا۔ بتلائیے مفتوح قوم سے کیا ناروا سلوک ہوا؟ غزوۂ بنو قریظہ: اس غزوہ کا حال پہلے اسیرانِ جنگ سے سلوک کے تحت مفصل لکھا جا چکا ہے۔ اس
Flag Counter