(۸) کشور کشائی : اگر کشور کشائی اور ملک گیری کے پہلو سے دیکھا جائے تو ہمیں سکندر اعظم کا مقام سب سے آگے نظر آتا ہے جس نے ۳۲۵ ق م سے ۳۲۶ ق م میں یونان سے لے کر دریائے بیاس تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں۔ (۱) اس نے مسلسل ۹ سال اسی ملک گیری میں صرف کیے۔ اس کی ملک گیری کی ہوس اتنی شدید تھی کہ اس نے تمام دنیا کو مسخر کرنا چاہا۔ اور اس کی یہ آرزو نا ممکنات سے تھی لہٰذا وہ اس آرزو کا پانچواں حصہ بھی پورانہ کر سکا۔ اور یہی حسرت دل میں لیے مرگیا۔ (۲) اس کا مطمح نظر صرف جہانگیری تھا۔ قبضہ کے استحکام کی طرف اس نے کم ہی توجہ دی اور جہاں بانی یا مفتوحہ علاقوں میں امن اوران کی فلاح و بہبود کا خیال تک بھی اس کے دل میں کبھی نہ آیا۔مورخین اس کے متعلق یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ وہ بادل کی طرح آیا اور برس کر چلا گیا، یا آندھی کی طرح آیا اور بگولے کی طرح واپس چلاگیا۔‘‘ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں اس کے حملہ کے صرف تین سال بعد تک (یونانی یلغار کا کچھ) اثر باقی نہ رہا۔ جتنے انسانوں کو اس نے تہ تیغ کیا تھا اتنے اور پیدا ہو گئے۔ اس کا کوئی جانشین بھی اس قابل نہ تھا کہ وہ قبضہ بحال رکھ سکتا۔ لہٰذا یونانی تہذیب کا ذرہ بھر اثر ہمیں ہندوستان پر دکھائی نہیں دیتا۔ اب دیکھیے کہ اسلام کا اصل مقصد کشو رکشائی نہیں بلکہ اسلامی نظام ِ حیات کا نفاذ اور اس کی تحریک کو پروان چڑھانا ہے اور یہ مقصد کشور کشائی کے بغیر بھی ممکن ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرگئے اور اہلِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔، تب بھی اسلام مکہ میں آگے بڑھ رہا تھا۔ قریش مکہ ایک حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو صلح حد یبیہ کے بعد واپس لائے تو ان کے ذریعہ تقریباً تین سو آدمی تحریکِ اسلامی میں شامل ہوئے۔ جبکہ ابھی مکہ قریش کے زیر اقتدار تھا۔ اسلا م کشور کشائی کی طرف صرف اس وقت توجہ دیتا ہے جب کہ کوئی ملک یا قوم تحریک کے مقاصد میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہو۔ اس صورت میں بھی اس کا اصل مقصد جہانبانی ہوتا |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |