Maktaba Wahhabi

89 - 268
کہ وہ دور تک کئی میلوں میں پھیل کر پڑا ؤ ڈالیں اور آگ خوب روشن کریں۔اس تدبیر کا بھی یہی مقصد تھا کہ مسلمانوں کی فوج اصل تعداد سے کئی گنا زیادہ معلوم ہو ۔قریش مکہ کے لیے یہ حملہ غیر متوقع تھا کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی راز داری سے کام لیا تھا۔یکدم اتنی بڑی فوج دیکھنے پر اہل مکہ کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ نفسیاتی طور پر اتنے مرعوب ہوگئے کہ مقابلہ کی جرأت نہ کرسکے۔ (۵) غزوہ بنولحیان (ربیع الاول ۶ھ) کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں نکلے اور اپنی فوجوں کا رخ شمال کی طرف کیا۔جب یہ خبر قریش اور بنو لحیان میں مشہور ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگہانی طور پر پلٹ کر بنو لحیان پر حملہ کردیا۔بنو لحیان اس ناگہانی حملہ سے گھبرا کر مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور منتشر ہوگئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایسے ڈھنگ اختیار کیے جو اس جیسی لڑائیوں میں آج کے ترقی یافتہ دور میں استعمال ہو رہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے محاصرہ میں منجنیق‘ دبابہ اور ضبور سے کام لیا۔اس وقت ایسے ہتھیاروں کا استعمال عجیب وغریب تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں اپنے ٹھہرنے کے لیے جو علیحدہ جگہ (عریش) تیار کروائی اور اپنا ٹھکانہ منتخب کرتے وقت تمام ضروری انتظامات کا لحاظ رکھا جیسا کہ آج کل کی جنگوں میں ہوتا ہے۔ (۴) گوریلا جنگ انفرادی جنگ کی یہ شکل بھی خدعہ ہی کے ذیل میں آتی ہے۔یہ طریق جنگ عموماً اس وقت استعمال کرنا پڑتا ہے جب کھلے میدان میں مقابلہ کی صورت پیدانہ ہو سکے۔یا اگر ہو تو وہ یا غیر مؤثر ہویا نقصان دہ۔ایسی جنگ کسی جنگی ضابطہ یا نظم کے تحت نہیں لڑی جاتی۔اس کا مقصد دشمن کے ٹھکانوں کو اور بعض تخریب کار عناصر کو خفیہ طریقہ اور دا ؤ سے نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔نیز دشمن کے بعض ایسے افراد جو زیر زمین سازشوں اور تخریب کاریوں میں مصروف رہتے ہیں اور کھلے میدان میں مقابلہ کو نہیں آتے۔انہیں اس طریقہ سے ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے چنانچہ جنگ احزاب سے قبل ایسے ہی چند دشمنان اسلام کا قلع قمع کر دیا گیا۔واضح رہے کہ ان دشمنان اسلام کا جرم اتنا
Flag Counter