Maktaba Wahhabi

51 - 268
اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتوں کی تعلیم دی ہے۔ ایک یہ کہ جس منصب کے لئے کسی کا تقرر کیا جائے اس منصب کی اہلیتوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ (چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں لشکر اسامہ بن زید کی سرکردگی میں بھیجا گیا۔ اور فتحیاب ہو کر واپس آیا) دوسرے یہ کہ جو امیر مقرر کیاجائے سب کو اس کی اطاعت کرنا چاہئے۔ خواہ غلام یا غلام زادہ ہو۔ چنانچہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ لشکر روانہ کیا تو آپ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی اجازت سے اسلامی ریاست کے انتظام کے لئے مدینہ میں رہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خود حضرت اسامہ کو الوداع کرنے گئے۔ حضرت اسامہ گھوڑے پر سوار تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت اسامہ کہتے ہی رہے کہ یا آپ بھی سوار ہو جائیں یا میں بھی پیدل چلتا ہوں۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں میں سے کوئی بات قبول نہ کی۔ رخصت کرتے وقت فرمانے لگے اگر مناسب سمجھو تو انتظام سلطنت کے لیے عمر ص کو میرے پاس چھوڑ جا ؤ ۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات بخوشی منظور کر لی۔ (طبری حصہ دوم خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ) حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی کئی سرایا سے کامیاب و کامران واپس آئے تھے۔ ان میں جنگی مہارت اور سپہ سالار بننے کے اوصاف موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو سریہ موتہ میں سالار لشکر بنایا تھا۔ بڑے بڑے صحابی اور خالد بن ولید جیسا جرنیل آپ کی سرکردگی میں اس جہاد میں شریک ہوئے۔ زید بن[1] حارثہ ص اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ اور بالآخر خالد بن ولید کے ہاتھ پر اللہ نے فتح دی۔ اس جنگ میں حضرت زید کو سپہ سالار بنانے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم مقصد یہی تھا کہ قریش کے تفوق کے بت کو پاش پاش کر دیا جائے۔ یہ تو ایک خاص پہلو تھا جس میں امت کی اخلاقی تربیت مقصود تھی۔ عام اصول یہی ہے کہ کمانڈروں کے انتخاب میں بھی سپہ سالار کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر لینا چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ دور رس بھی اس سلسلہ میں بہت تیز تھی۔ اور ہر محاذ پر لشکر روانہ کرتے وقت ان کی نظر کسی اہل تر سپہ سالار پر جا کر ٹکتی تھی۔ تاہم جنگ قادسیہ کے موقع پر انہیں بھی سپہ سالار کے
Flag Counter